ڈیلّس مارننگ نیوز
پاکستان کی 14سالہ سرگرم کارکُن ، ملالہ یُّوسف زئی پرطالبان کے بُزدلانہ حملے پرامریکی اخبارات میں برابر ادارئے اورتجزیاتی کالم لکھے جا رہے ہیں۔ ریاست ٹیکساس کا اخبار ڈیلّس مارننگ نیوز ایک ادرائے میں کہتا ہے کہ اس حملے سےاس سنگین خطرے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جسے اسلامی پاکبازی کالبادہ پہنایا گیا ہے، اور جس کے خلاف بین الاقوامی سطح پر جنگ جاری ہے ۔
اخبار کہتا ہے کہ اس لڑکی کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے تعلیم نسواں کے حق میں آواز بلند کی تھی، اور طالبان کی دہمکیوں کو دُھتکاردیا تھا، اس لئے اسے گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اخبار کہتا ہے کہ دُنیا کو طالبان کا مکرُوہ چہرہ کبھی نہیں بُھولے گا۔ جنہوں نے سنہ 2001میں امریکی حملے سے قبل پڑوسی افغانستان میں موسیقی اور ٹیلیوژن کوکُلیتہً ممنوع قرار دیا تھا۔ اور عورتوں کے لئے بُرقع پہننا لازمی کر دیا گیا تھا۔ وہ کام نہیں کر سکتی تھیں اورسکول نہیں جا سکتی تھیں۔ اخبار کہتا ہے کہ گیارہ سال قبل جنگ شروع کرنے کے بعد امریکی فوجوں نےطالبان کا صفایا کرنے کے بعد القاعدہ کی طرف توجّہ دی۔ القاعدہ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ لیکن طالبان نے پھر سر اُٹھایا ہے۔ جس کی وجہ سے افغانستان میں ہلاک ا ور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اور بہت سے امریکی یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ وُہ کیوں ابھی تک افغانستان میں اُلجھے ہوئے ہیں۔
اخبار نے اس کی وجہ طالبان کے خلاف ملالہ یُوسف زئی کی جرآت اوراستقلال اوروُہ مقامی مساعی قرار دی ہے، جو انسانیت کو واپس تاریک دور کی طرف دھکیلنے کے خلاف ہو رہی ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوجیں فوجی اعتبار سے طالبان کو روک سکتے ہیں ۔ لیکن ملالہ عوامی سطح پر اُس تحریک کی نمائندگی کرتی ہے، جس کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔اگر طالبان کی جوروجبرکی مہم کو کچلنا مقصود ہے۔
نیو یارک کےاخبار نیوزڈے کے ادارئے کا عنوان ہے، ملالہ یوسف زئی کی حمائت میں آواز بلند کریں، اخبار کہتا ہے، کہ وُہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک چودہ سالہ لڑکی کو محض اس لئے گولی کا نشانہ بنایا گیا کہ اُسے تعلیم کا جنوں تھا۔ سنہ 2009 میں اُسے إس جنوں اور لڑکیوں اور طالبان کی ستائی ہوئی عورتوں کے لئے مساویانہ حقوق کی علم بردار ہونے کی وجہ سے ایک بین الاقومی علامت کا درجہ حاصل ہوا تھا ۔علم کے ساتھ اس کی دیوانہ وار وابستگی نے اسے متعدد بین الاقوامی انعامات دلوائے اور اس پر کئی دستاویزی فلمیں بنیں۔اور اسی بات نے عورتوں سے حقارت کرنے والےطالبان کو اُسے قتل کرنے کی کوشش پر اُکسایا۔
اخبار کہتا ہےکہ یہ صورت حال کُلّی طور پر نا قابل قبول ہے۔جو ہر مہذّب قوم کے عوام کی طرف سے انسانیت کے ناطےمداخلت کی متقاضی ہے ۔ اور اپنے ناقابلٕ تنسیخ حقوق کا مطالبہ کرنےکی جسارت کرنے والی عورتوں اور لڑکیوں پر اُس تشدّد کو کسی نہ کسی طورروکنا لازمی ہے۔جو صٕنف نازک سے حقارت کرنے والے یہ لوگ کرتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ
اسی موضوع پر واشنگٹن پوسٹ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اس بہادر لڑکی پرطالبان کے حملے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اُس کی ذات میں انہیں ملک کے مسقبل کا پرتو نظر آ رہا تھا، اُسے پاکستان میں وسیع پیمانے کی مقبولیت حاصل ہو گئی تھی ، جیسا کہ حکومت کی اعلیٰ ترین سطح اورملک کےمیڈیا کی طرف سے طالبان کے اس حملے کی مذمّت سے ظاہر ہے۔ اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ اپنی مشکلات کے باوجود پاکستان نے تعلیم نسوان کے شعبے میں معتد بہ پیش رفت کی ہے ۔ اور اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 15 اور 24 سال کی درمیانی عمر کی خواتین میں خواندگی کی شرح میں خاصی ترقی ہوئی ہے۔لیکن اخبار افسوس کے ساتھ کہتا ہے کہ تعلیم نسواں میں سب سے بڑی روکاوٹ دیہات میں ہے جہاں طالباں اور دوسری انتہا پسند تنظیمیں موجود ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال افغانستان میں بھی ہے۔ جہاں گیارہ صوبوں میں طالبان کا زور ہے ۔جس وجہ سے اُن میں پچھلے سال ساڑھے پانچ سو سکول بند کر دئے گئے۔
اخبار کہتا ہے ، کہ اوباما انتظامیہ بار بار کہہ چکی ہےکہ وُہ مذاکرات کے ذریعے تصفئے کے لئے تیا ر ہے ۔ بشرطیکہ طالبان افغان آئین پر عمل درآمد کریں، اور عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق تسلیم کریں۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر اس مذموم حملے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طالبان ابھی تک امریکہ سے نفرت کر تے ہیں اور بقول ایک طالبان ترجمان کےملالہ کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وُہ صدر اوباما کواپنا آئیڈئیل لیڈر مانتی ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ اس اعتبار سے شاید ایسے لوگوں سے کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے۔ لیکن امریکہ کے لئے ان لوگوں سے معصوم لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہمیشہ ممکن ہوگا۔
ملالہ پراس مذموم حملےسے بے شُمار لوگوں کو دلی صدمہ ہوا ہے۔ اُن میں امریکہ کی ایک سابق خاتون اول لارا بُش شامل ہیں ۔ جنہوں نے اس کا اظہار واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون میں کیا ہے۔وُہ کہتی ہیں کہ ملالہ کی مثال ہمارے لئے سبق آموز ہے۔، اور اُس کی زندگی پاکستا ن اور اس پورے خطے کے روشن مستقبل کی بشارت ہے
پاکستان کی 14سالہ سرگرم کارکُن ، ملالہ یُّوسف زئی پرطالبان کے بُزدلانہ حملے پرامریکی اخبارات میں برابر ادارئے اورتجزیاتی کالم لکھے جا رہے ہیں۔ ریاست ٹیکساس کا اخبار ڈیلّس مارننگ نیوز ایک ادرائے میں کہتا ہے کہ اس حملے سےاس سنگین خطرے کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ جسے اسلامی پاکبازی کالبادہ پہنایا گیا ہے، اور جس کے خلاف بین الاقوامی سطح پر جنگ جاری ہے ۔
اخبار کہتا ہے کہ اس لڑکی کا قصور صرف یہ تھا کہ اس نے تعلیم نسواں کے حق میں آواز بلند کی تھی، اور طالبان کی دہمکیوں کو دُھتکاردیا تھا، اس لئے اسے گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ اخبار کہتا ہے کہ دُنیا کو طالبان کا مکرُوہ چہرہ کبھی نہیں بُھولے گا۔ جنہوں نے سنہ 2001میں امریکی حملے سے قبل پڑوسی افغانستان میں موسیقی اور ٹیلیوژن کوکُلیتہً ممنوع قرار دیا تھا۔ اور عورتوں کے لئے بُرقع پہننا لازمی کر دیا گیا تھا۔ وہ کام نہیں کر سکتی تھیں اورسکول نہیں جا سکتی تھیں۔ اخبار کہتا ہے کہ گیارہ سال قبل جنگ شروع کرنے کے بعد امریکی فوجوں نےطالبان کا صفایا کرنے کے بعد القاعدہ کی طرف توجّہ دی۔ القاعدہ اب تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ لیکن طالبان نے پھر سر اُٹھایا ہے۔ جس کی وجہ سے افغانستان میں ہلاک ا ور زخمی ہونے والے امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اور بہت سے امریکی یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ وُہ کیوں ابھی تک افغانستان میں اُلجھے ہوئے ہیں۔
اخبار نے اس کی وجہ طالبان کے خلاف ملالہ یُوسف زئی کی جرآت اوراستقلال اوروُہ مقامی مساعی قرار دی ہے، جو انسانیت کو واپس تاریک دور کی طرف دھکیلنے کے خلاف ہو رہی ہیں۔ اخبار کہتا ہے کہ امریکی فوجیں فوجی اعتبار سے طالبان کو روک سکتے ہیں ۔ لیکن ملالہ عوامی سطح پر اُس تحریک کی نمائندگی کرتی ہے، جس کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔اگر طالبان کی جوروجبرکی مہم کو کچلنا مقصود ہے۔
نیو یارک کےاخبار نیوزڈے کے ادارئے کا عنوان ہے، ملالہ یوسف زئی کی حمائت میں آواز بلند کریں، اخبار کہتا ہے، کہ وُہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک چودہ سالہ لڑکی کو محض اس لئے گولی کا نشانہ بنایا گیا کہ اُسے تعلیم کا جنوں تھا۔ سنہ 2009 میں اُسے إس جنوں اور لڑکیوں اور طالبان کی ستائی ہوئی عورتوں کے لئے مساویانہ حقوق کی علم بردار ہونے کی وجہ سے ایک بین الاقومی علامت کا درجہ حاصل ہوا تھا ۔علم کے ساتھ اس کی دیوانہ وار وابستگی نے اسے متعدد بین الاقوامی انعامات دلوائے اور اس پر کئی دستاویزی فلمیں بنیں۔اور اسی بات نے عورتوں سے حقارت کرنے والےطالبان کو اُسے قتل کرنے کی کوشش پر اُکسایا۔
اخبار کہتا ہےکہ یہ صورت حال کُلّی طور پر نا قابل قبول ہے۔جو ہر مہذّب قوم کے عوام کی طرف سے انسانیت کے ناطےمداخلت کی متقاضی ہے ۔ اور اپنے ناقابلٕ تنسیخ حقوق کا مطالبہ کرنےکی جسارت کرنے والی عورتوں اور لڑکیوں پر اُس تشدّد کو کسی نہ کسی طورروکنا لازمی ہے۔جو صٕنف نازک سے حقارت کرنے والے یہ لوگ کرتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ
اسی موضوع پر واشنگٹن پوسٹ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ اس بہادر لڑکی پرطالبان کے حملے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اُس کی ذات میں انہیں ملک کے مسقبل کا پرتو نظر آ رہا تھا، اُسے پاکستان میں وسیع پیمانے کی مقبولیت حاصل ہو گئی تھی ، جیسا کہ حکومت کی اعلیٰ ترین سطح اورملک کےمیڈیا کی طرف سے طالبان کے اس حملے کی مذمّت سے ظاہر ہے۔ اخبار نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ اپنی مشکلات کے باوجود پاکستان نے تعلیم نسوان کے شعبے میں معتد بہ پیش رفت کی ہے ۔ اور اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق 15 اور 24 سال کی درمیانی عمر کی خواتین میں خواندگی کی شرح میں خاصی ترقی ہوئی ہے۔لیکن اخبار افسوس کے ساتھ کہتا ہے کہ تعلیم نسواں میں سب سے بڑی روکاوٹ دیہات میں ہے جہاں طالباں اور دوسری انتہا پسند تنظیمیں موجود ہیں۔ اسی طرح کی صورت حال افغانستان میں بھی ہے۔ جہاں گیارہ صوبوں میں طالبان کا زور ہے ۔جس وجہ سے اُن میں پچھلے سال ساڑھے پانچ سو سکول بند کر دئے گئے۔
اخبار کہتا ہے ، کہ اوباما انتظامیہ بار بار کہہ چکی ہےکہ وُہ مذاکرات کے ذریعے تصفئے کے لئے تیا ر ہے ۔ بشرطیکہ طالبان افغان آئین پر عمل درآمد کریں، اور عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق تسلیم کریں۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر اس مذموم حملے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ طالبان ابھی تک امریکہ سے نفرت کر تے ہیں اور بقول ایک طالبان ترجمان کےملالہ کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وُہ صدر اوباما کواپنا آئیڈئیل لیڈر مانتی ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ اس اعتبار سے شاید ایسے لوگوں سے کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکے۔ لیکن امریکہ کے لئے ان لوگوں سے معصوم لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہمیشہ ممکن ہوگا۔
ملالہ پراس مذموم حملےسے بے شُمار لوگوں کو دلی صدمہ ہوا ہے۔ اُن میں امریکہ کی ایک سابق خاتون اول لارا بُش شامل ہیں ۔ جنہوں نے اس کا اظہار واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون میں کیا ہے۔وُہ کہتی ہیں کہ ملالہ کی مثال ہمارے لئے سبق آموز ہے۔، اور اُس کی زندگی پاکستا ن اور اس پورے خطے کے روشن مستقبل کی بشارت ہے