نئی دہلی —
بھارت میں افراط زر کی بلند شرح سے حکومت کی ان کوششوں کو نقصان پہنچ رہاہے جو وہ معیشت کی بحالی کے لیے کررہی ہے۔ گذشتہ سال جنوبی ایشیا کی اس ابھرتی ہوئی معیشت کی ترقی کی رفتار گر گئی تھی اور ان خدشات نے جنم لیا تھا کہ ایشیا کی تیسری بڑی معیشت اپنی توانائیاں کھورہی ہے۔
چوبیس سالہ کومل اور ان کاشوہر نیودہلی میں گھریلو ملازمت کرتے ہیں ، اور ان کی مجموعی ماہانہ آمدنی تقریباً 180 ڈالر ہے۔ وہ شہر کے مضافات میں واقع ایک کچی بستی میں ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔ لیکن کھانے پینے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گھروں کے کرائے میں مسلسل اضافے سے ان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
کومل کا کہناہے کہ آلو، پیاز اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کی قیمتیں ، جو غریب آدمی کی بنیادی خوراک ہے، پچھلے سال کے مقابلے میں دو گنا بڑھ چکی ہیں جب کہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ انہیں یہ فکر ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو ان کے بچے کس طرح پڑھیں گے اور ان کی شادیوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔
یہ صرف کومل کا مسئلہ نہیں ہے،بھارت کے کروڑوں افراد کو اسی پریشانی کا سامنا ہے۔
بھارت کی دو تہائی آبادی کی فی کس روزانہ آمدنی دو ڈالر فی کس سے کم ہے۔
اس ہفتے بھارت کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی کی نسبت افراط زر کی شرح میں اضافہ زیادہ تشویش ناک ہے۔
افراط زر میں اضافے سے خوراک اور ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جس سے عام شہریوں کی زندگی پر دباؤ میں اضافہ ہورہاہے۔
افراط زر کی شرح میں اضافے سے حکومت کی ان کوششوں کو نقصان پہنچ رہاہے جو وہ معیشت کی رفتار بڑھانے کے لیے کررہی ہے۔ گذشتہ سال بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح آٹھ فی صد سالانہ سے زیادہ تھی جو اب گر کر تقریباً ساڑھے پانچ فی صد ہوچکی ہے۔
حکومت چاہتی ہے کہ مرکزی بینک سود کی شرح میں کمی کرے تاکہ سرمایہ کاری کے لیے ماحول ساز گار ہوسکے۔لیکن مرکزی بینک افراط زر کی وجہ سے حکومت کا یہ مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
حکومت نے سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے پرچون اور شہری ہوابازی کے شعبے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیے ہیں اور کئی اقتصادی ماہرین یہ توقع کررہے ہیں ان اصلاحات سے بھارت اقتصادی ترقی کی اپنی سابقہ شرح حاصل کرسکتا ہے۔
چوبیس سالہ کومل اور ان کاشوہر نیودہلی میں گھریلو ملازمت کرتے ہیں ، اور ان کی مجموعی ماہانہ آمدنی تقریباً 180 ڈالر ہے۔ وہ شہر کے مضافات میں واقع ایک کچی بستی میں ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔ لیکن کھانے پینے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور گھروں کے کرائے میں مسلسل اضافے سے ان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔
کومل کا کہناہے کہ آلو، پیاز اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کی قیمتیں ، جو غریب آدمی کی بنیادی خوراک ہے، پچھلے سال کے مقابلے میں دو گنا بڑھ چکی ہیں جب کہ آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ انہیں یہ فکر ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو ان کے بچے کس طرح پڑھیں گے اور ان کی شادیوں کے اخراجات کیسے پورے ہوں گے۔
یہ صرف کومل کا مسئلہ نہیں ہے،بھارت کے کروڑوں افراد کو اسی پریشانی کا سامنا ہے۔
بھارت کی دو تہائی آبادی کی فی کس روزانہ آمدنی دو ڈالر فی کس سے کم ہے۔
اس ہفتے بھارت کے مرکزی بینک کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اقتصادی ترقی کی شرح میں کمی کی نسبت افراط زر کی شرح میں اضافہ زیادہ تشویش ناک ہے۔
افراط زر میں اضافے سے خوراک اور ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جس سے عام شہریوں کی زندگی پر دباؤ میں اضافہ ہورہاہے۔
افراط زر کی شرح میں اضافے سے حکومت کی ان کوششوں کو نقصان پہنچ رہاہے جو وہ معیشت کی رفتار بڑھانے کے لیے کررہی ہے۔ گذشتہ سال بھارت کی اقتصادی ترقی کی شرح آٹھ فی صد سالانہ سے زیادہ تھی جو اب گر کر تقریباً ساڑھے پانچ فی صد ہوچکی ہے۔
حکومت چاہتی ہے کہ مرکزی بینک سود کی شرح میں کمی کرے تاکہ سرمایہ کاری کے لیے ماحول ساز گار ہوسکے۔لیکن مرکزی بینک افراط زر کی وجہ سے حکومت کا یہ مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
حکومت نے سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے پرچون اور شہری ہوابازی کے شعبے غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول دیے ہیں اور کئی اقتصادی ماہرین یہ توقع کررہے ہیں ان اصلاحات سے بھارت اقتصادی ترقی کی اپنی سابقہ شرح حاصل کرسکتا ہے۔