واشنگٹن —
امریکی حکومت کی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اپنی اہلیت میں کمی کے باعث 2014میں بین الاقوامی فورسز کے انخلا کے بعد اپنی سیکیورٹی فورسز کو مجتمع نہیں رکھ سکے گا۔
پینٹا گان سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں افغانستان کی تعمیر نو سے منسلک اسپیشل انسپکٹر جنرل کے ایسے کئی تازہ ترین خدشات بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں 2014 میں امریکہ اور نیٹو کے فوجی دستوں کی واپسی کے بعد افغانستان کی اپنے بل بوتے پر حکومت چلانے کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والی یہ رپورٹ زیادہ تر افغان حکومت کی اپنے ادارے چلانے اور ان کی دیکھ بھال کی صلاحیت پر مرکوز ہے جن میں بجٹ سازی، خریداریاں اور لاجسٹک امور بھی شامل ہیں ،اور جنہیں نگران گروپ نے غیرترقی یافتہ قرار دیا ہے۔
اس آڈٹ رپورٹ میں حکومت کے انتظامی نظاموں کا جائزہ لیا گیا ہے، لیکن واشنگٹن میں قائم امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایک تجزیہ کار گیری شمٹ کا کہناہے کہ 2014کے بعد یہ کمی اور خامی ملک کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ صاف لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے وہاں اگلے محاذوں پر ڈیوٹی دینے والے افراد کو خوراک اور تنخواہیں نہیں مل سکیں گی اور نہ ہی ان کےپاس سیکیورٹی اور تحفظ کا مناسب سازو سامان ہوگا اور جب فوجیوں کو یہ چیزیں نہیں دی جائیں گی تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ یاتو اپنی نوکری چھوڑ دیں گے یاپھر اپنی بندوقیں حکومت پر تان لیں گے۔
انسپکٹر جنرل کا کہناہے کہ ایک اور بڑا مسئلہ فوجیوں اور کنٹریکٹروں کی کثیر تعداد کا ناخواندہ ہونا ہے اور وہ بجلی گھروں اور نکاسی آب کے پلانٹس کو رواں رکھنے کی ہدایات اور نقشے وغیرہ نہیں پڑھ سکتے۔
رپورٹ میں 2014 کے بعد ملک کے انتظامی امور سنبھالنے کے لیے افغانوں کو تربیت دینے والے کنٹریکٹرز پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی کے پاس غیر ملکی فوجی انخلاسے 16 مہینے پہلے ہی سرمایہ ختم ہوچکا ہے جب کہ ابھی اس کا آدھاکام باقی ہے۔
پچھلے مالی سال کے دوران نیٹو نے افغانستان میں خدمات کے شعبے چلانے اور ان کی دیکھ بھال پر 80 کروڑ ڈالر صرف کیے تھے جن میں افغان حکومت کے عہدے داروں کی تربیت بھی شامل تھی۔
پینٹا گان سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں افغانستان کی تعمیر نو سے منسلک اسپیشل انسپکٹر جنرل کے ایسے کئی تازہ ترین خدشات بھی شامل کیے گئے ہیں جن میں 2014 میں امریکہ اور نیٹو کے فوجی دستوں کی واپسی کے بعد افغانستان کی اپنے بل بوتے پر حکومت چلانے کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والی یہ رپورٹ زیادہ تر افغان حکومت کی اپنے ادارے چلانے اور ان کی دیکھ بھال کی صلاحیت پر مرکوز ہے جن میں بجٹ سازی، خریداریاں اور لاجسٹک امور بھی شامل ہیں ،اور جنہیں نگران گروپ نے غیرترقی یافتہ قرار دیا ہے۔
اس آڈٹ رپورٹ میں حکومت کے انتظامی نظاموں کا جائزہ لیا گیا ہے، لیکن واشنگٹن میں قائم امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایک تجزیہ کار گیری شمٹ کا کہناہے کہ 2014کے بعد یہ کمی اور خامی ملک کے امن کے لیے ایک بڑا خطرہ ہوگی۔
وہ کہتے ہیں کہ صاف لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے وہاں اگلے محاذوں پر ڈیوٹی دینے والے افراد کو خوراک اور تنخواہیں نہیں مل سکیں گی اور نہ ہی ان کےپاس سیکیورٹی اور تحفظ کا مناسب سازو سامان ہوگا اور جب فوجیوں کو یہ چیزیں نہیں دی جائیں گی تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ یاتو اپنی نوکری چھوڑ دیں گے یاپھر اپنی بندوقیں حکومت پر تان لیں گے۔
انسپکٹر جنرل کا کہناہے کہ ایک اور بڑا مسئلہ فوجیوں اور کنٹریکٹروں کی کثیر تعداد کا ناخواندہ ہونا ہے اور وہ بجلی گھروں اور نکاسی آب کے پلانٹس کو رواں رکھنے کی ہدایات اور نقشے وغیرہ نہیں پڑھ سکتے۔
رپورٹ میں 2014 کے بعد ملک کے انتظامی امور سنبھالنے کے لیے افغانوں کو تربیت دینے والے کنٹریکٹرز پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی کے پاس غیر ملکی فوجی انخلاسے 16 مہینے پہلے ہی سرمایہ ختم ہوچکا ہے جب کہ ابھی اس کا آدھاکام باقی ہے۔
پچھلے مالی سال کے دوران نیٹو نے افغانستان میں خدمات کے شعبے چلانے اور ان کی دیکھ بھال پر 80 کروڑ ڈالر صرف کیے تھے جن میں افغان حکومت کے عہدے داروں کی تربیت بھی شامل تھی۔