امریکی صدربراک اوباما اور ری پبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایوان نمائندگان کے اسپیکرنے ملک کو درپیش مالیاتی بحران کے حل کے لیے ملاقات کی ہے۔ اسپیکر جان بونیر اس ہفتے دوبار وہائٹ ہاؤس آچکے ہیں۔
صدر براک اوباما اور اسپیکر جان بونیر کے درمیان تقریباً50 منٹ تک ملاقات جاری رہی ۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ٹیکسوں میں اضافے اور سرکاری اخراجات میں کمی کے خودکار نظام کو جسے ’فسکل کلف‘ کا نام دیا جارہاہے،نافذ ہونے میں محض تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔
بعد ازاں وہائٹ ہاؤس اور بونیر کے دفتر ، دونوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ملاقات کو بے تکلفانہ قراردیا گیا۔ انتظامیہ کے ایک عہدے دار کا کہناہے کہ دونوں فریقوں نے بات چیت کے دروازے بدستور کھلے رکھے ہوئے ہیں۔
یکم جنوری سے نافذ ہونے والے تقریباً چھ کھرب ڈالر کے ٹیکسوں اور سرکاری اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ قانون ساز اس تاریخ سے پہلے قانون کی منظوری دیں اور صدر اس پر دستخط کردیں۔
لیکن حالیہ دنوں میں نہ تو صدر اوباما کی ڈیموکریٹک انتظامیہ اور نہ ہی ری پبلیکن غلبے کی کانگریس نے ایسا کوئی اشارہ دیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔
وہائٹ ہاؤس قومی خسارہ کم کرنے کے لیے امیر وں پرٹیکس بڑھانے پر اصرار کرتا ہے ۔ پریس سیکرٹری جے کارنی کہتے ہیں کہ انتظامیہ کو توقع ہے کہ ری پبلیکن اس مسئلے کے تصفیے پر راضی ہوجائیں گے۔
ان کا کہناہے کہ ہمیں اب بھی یقین ہے کہ ایک بڑا معاہدہ ہوسکتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں پیرا میٹرز موجود ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ری پبلیکنز اس بنیادی پہلو سے اتقاق کرلیتے ہیں کہ امیروں پر ٹیکس بڑھنا چاہیے اور باقی سب کو ٹیکسوں میں رعایت ملنی چاہیے تو ہم بہت جلد کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔
جان بونیر سے ملاقات سے قبل مسٹر اوباما نے منی سوٹا کے ایک ٹیلی ویژن اسٹیشن کوبتایا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ ٹیکسوں کے مسئلے پر ری پبلیکنز کے رویے میں تبدیلی آئے گی۔
جمعرات کی صبح اسپیکر بونیر نے کہا تھا کہ صدر مذاکرات میں تاخیر کررہے ہیں اور انہیں حکومتی اخراجات پر کٹوتیوں کی کوئی زیادہ فکر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سرکاری اخراجات کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے آخری لمحات میں بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن صدر ابھی تک کسی معاہدے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
ادھر ری پبلیکن اسپیکر کئی دنوں کے لیے واشنگٹن سے اپنے گھر اوہائیو جانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔
صدر براک اوباما اور اسپیکر جان بونیر کے درمیان تقریباً50 منٹ تک ملاقات جاری رہی ۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ٹیکسوں میں اضافے اور سرکاری اخراجات میں کمی کے خودکار نظام کو جسے ’فسکل کلف‘ کا نام دیا جارہاہے،نافذ ہونے میں محض تین ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔
بعد ازاں وہائٹ ہاؤس اور بونیر کے دفتر ، دونوں کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں ملاقات کو بے تکلفانہ قراردیا گیا۔ انتظامیہ کے ایک عہدے دار کا کہناہے کہ دونوں فریقوں نے بات چیت کے دروازے بدستور کھلے رکھے ہوئے ہیں۔
یکم جنوری سے نافذ ہونے والے تقریباً چھ کھرب ڈالر کے ٹیکسوں اور سرکاری اخراجات میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کو روکنے کے لیے ضروری ہے کہ قانون ساز اس تاریخ سے پہلے قانون کی منظوری دیں اور صدر اس پر دستخط کردیں۔
لیکن حالیہ دنوں میں نہ تو صدر اوباما کی ڈیموکریٹک انتظامیہ اور نہ ہی ری پبلیکن غلبے کی کانگریس نے ایسا کوئی اشارہ دیا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ اس سلسلے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔
وہائٹ ہاؤس قومی خسارہ کم کرنے کے لیے امیر وں پرٹیکس بڑھانے پر اصرار کرتا ہے ۔ پریس سیکرٹری جے کارنی کہتے ہیں کہ انتظامیہ کو توقع ہے کہ ری پبلیکن اس مسئلے کے تصفیے پر راضی ہوجائیں گے۔
ان کا کہناہے کہ ہمیں اب بھی یقین ہے کہ ایک بڑا معاہدہ ہوسکتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس سلسلے میں پیرا میٹرز موجود ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ری پبلیکنز اس بنیادی پہلو سے اتقاق کرلیتے ہیں کہ امیروں پر ٹیکس بڑھنا چاہیے اور باقی سب کو ٹیکسوں میں رعایت ملنی چاہیے تو ہم بہت جلد کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں۔
جان بونیر سے ملاقات سے قبل مسٹر اوباما نے منی سوٹا کے ایک ٹیلی ویژن اسٹیشن کوبتایا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ ٹیکسوں کے مسئلے پر ری پبلیکنز کے رویے میں تبدیلی آئے گی۔
جمعرات کی صبح اسپیکر بونیر نے کہا تھا کہ صدر مذاکرات میں تاخیر کررہے ہیں اور انہیں حکومتی اخراجات پر کٹوتیوں کی کوئی زیادہ فکر نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سرکاری اخراجات کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے آخری لمحات میں بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن صدر ابھی تک کسی معاہدے کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔
ادھر ری پبلیکن اسپیکر کئی دنوں کے لیے واشنگٹن سے اپنے گھر اوہائیو جانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔