امریکہ کے سب سے بڑے فوجی اڈے فورڈ بریگ میں ایک ریلی کے دوران منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیر دفاع کے لیے اپنے نامزد عہدے دار کو متعارف کرایا اور مداخلت اور ابتری کے تباہ کن سلسلے کے خاتمے پر زور دیا، جسے کچھ تبصرہ کاروں نے عالمی أمور کی جانب ایک غیر مداخلتی انداز کی ایک اپیل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں اگر تضادات نہیں ہیں تو بھی اس پر ابھی بہت کام باقی ہے ۔
انتخاب کے بعد اپنی کامیابی پر ملک بھر میں شکر گزاری کی ریلیوں اور تقريبات کوجاری رکھتے ہوئے منتخب صدر نے اپنی مہم کے اکثر أوقات دہرائے جانے والے موضوعات کا اعادہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ان غیر ملکی حکومتوں کا تختہ الٹنے میں حصہ لینا بند کر دیں گے جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے اور جس میں ہمیں حصہ نہیں لینا چاہیے ۔ اس کی بجائے ہماری توجہ دهشت گردی کو شکست دینے اور داعش کو تباہ کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے اور ہم ایسا ہی کریں گے۔
اپنے حامیوں کی جانب سے داد و تحسین کی گونج میں مسٹر ٹرمپ نے وزیر دفاع کے لئے اپنے منتخب کردہ ریٹائرڈ جنرل جیمز میٹس متعارف کرایا اور اپنی مہم کے ایک اور وعدے، یعنی امریکہ کی خستہ حال فوج کی تعمیر نو کی توثیق کی۔
لیکن منتخب صدر نےنیٹو کے ارکان کے لیے بھی، جو ابھی تک مسٹر ٹرمپ کی مہم کے دوران اتحادیوں کے بارے میں ان کے ایک تبصرے پر پریشان ہیں بظاہر اختلافات فراموش کرنے کا پیغام بھیجا ۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھولتے نہیں ہیں۔ ہم پرانی دوستیاں مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور نئی دوستیاں بنانا چاہتے ہیں ۔
مداخلت اور ابتری کے تباہ کن سلسلے کے خاتمے سے متعلق ٹرمپ کے وعدے کو کچھ مبصرین نے غیر مداخلتی خارجہ پالیسی کے لیے ایک اپیل قرار دیا ۔ لیکن خارجہ پالیسی پر ایک ماہر مائیکل او ہنلان نے اسے بات کو ضرورت سے زیادہ سادہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ پالیسی علاقوں کی بنیاد پر ہوگی۔ اب تک مثال کے طور پر ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ داعش کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات مجھے بہت زیادہ غیر مداخلتی محسوس نہیں ہوتی ۔
انتخابي مہم کے دوران مسٹر ٹرمپ نے اپنی ڈیمو کریٹک حریف ہلری کلنٹن پر عراق اور لیبیا میں ان فوجی مداخلتوں کی حمایت پر بار بار تنقید کی تھی جو ایسی پالیسیاں تھیں جنہیں انہوں نے خطے میں عدم استحكام اور دهشت گردی کے لیے مورد الزام ٹھہرایا ۔ مسٹر ٹرمپ بڑے پیمانے کی فوجی مداخلتوں کی بجائے داعش کے خلاف محدود حملوں کی حمایت کرتے ہیں ۔
مائیکل او ہنلان کہتے ہیں کہ دوسرے لفظوں میں ہو سکتا ہے کہ اس کا زیادہ انحصار مخصوص اہداف کو تباہ کرتے ہوئے، اور زمین پر امریکی موجودگی کو محدود کرتے ہوئے مزید مخصوص قسم کے حملوں پرہو ۔
ٹرمپ کی جانب سےمیٹس کی نامزدگی، جو ایک کہنہ مشق فوجی راہنما ہیں اور نیٹو کے ساتھ کام کرنے کا ایک گہرا تجربہ رکھتے ہیں، خارجہ پالیسی کے راہنماؤں اور اتحادیوں کے لیے از سر نو یقین دہانی کا ایک سگنل ہے ۔
مائیکل او ہنلان کہتے ہیں کہ منتخب ہونے کے بعد کے ایک ماہ میں مسٹر ٹرمپ نے بہت سے اتحادیوں کے لیے اپنے سابقه سخت رویے پر کنٹرول کیا ہے اور وہ اپنی جانب سے بھیجے جانے والے لگ بھگ ہر پیغام میں بہت زیادہ محتاط رہے ہیں خاص طور پر پنٹاگان کے سر براہ کے لیے جنرل میٹس کے اپنے انتخاب کے سلسلے میں ۔
لیکن مسٹر ٹرمپ نے اعلیٰ عہدوں پر دوسرے عہدے داروں کی نامزدگی جارحانہ تبصروں کے ساتھ کی ۔ اور اب جب کہ مسٹر ٹرمپ کی حلف برداری میں زیاہ عرصہ باقی نہیں ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی پر کام ابھی باقی ہے۔