خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں غیرت کے نام پر پانچ لڑکیوں کے قتل کا مقدمہ دائر کروانے کی بنا پر گزشتہ مہینے ایبٹ آباد میں ہلاک کیے جانے والے افضل کوہستانی کے روپوش بھائی بن یاسر نے پشاور پریس کلب میں حکومت سے انصاف اور سیکورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بن یاسر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں انصاف چاہیے۔ انصاف کے حصول کی کوشش میں افضل کوہستانی مارا گیا۔ ہمارے چار بھائی قتل ہو چکے ہیں اور مجھے بھی جان کا خطرہ ہے، لیکن ہمارے پاس انصاف کے لیے جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
2012 میں ضلع کوہستان کے علاقے پالس میں شادی کی ایک تقریب کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس میں دو لڑکے روایتی رقص کر رہے تھے اور وہاں بیٹھی چند لڑکیاں تالیاں بجا رہی تھیں۔
ویڈیو میں رقص کرنے والے دو لڑکے بن یاسر اور گل نذر، افضل کوہستانی کے بھائی تھے۔ جب کہ تالیاں بجانے والی لڑکیاں بازغہ، شیرین جان، بیگم جان، آمنہ اور شاہین تھیں جہنیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔
کوہستان ویڈیو سکینڈل میں نظر آنے والے بن یاسر جو گزشتہ کئی برسوں سے قتل کیے جانے کے خوف سے روپوش تھے، اب اپنے بھائی افضل کوہستانی کے قتل کے بعد منظرِ عام پر آ گئے ہیں۔
انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جاوید نامی مقامی مولوی نے انہیں قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی افضل نے غیرت کے نام پر قتل کے اس رواج کے خلاف آواز اُٹھائی تھی۔
بن یاسر نے کہا کہ پولیس نے افضل کوہستانی کے بھانجے فیض الرحمان کو، جو اس کا محافظ بھی تھا، افضل کے قتل کے جرم میں گرفتار کر لیا ہے جبکہ اصل مجرم تاحال آزاد ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بھانجے نے اپنے بچاؤ میں دو گولیاں چلائیں تھیں جس کی اسے سزا مل رہی ہے۔
بن یاسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افضل کے چار بچے یتیم ہو گئے ہیں جبکہ دیگر تین بھائیوں کے بھی 18 یتیم بچے اور بیوائیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حالات کے باعث اس وقت کل 45 افراد ایک ہی گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ مگر قتل کے خطرے کی وجہ سے وہ کوئی کام یا کاروبار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم کیس کی پیروی اور وکلاء کے اخرجات انتہائی مشکل سے پورے کر رہے ہیں۔
بن یاسر نے اس کیس کی از سر نو تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ غیرت کے نام پر بے گناہوں کے قتل کو روکا جا سکے۔
افضل کوہستانی کے بھائی نے کہا کہ ان افراد کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے جنہوں نے کمشن میں لڑکیوں کے زندہ ہونے کی جھوٹی گواہی دی تھی۔
خیبر پختون خوا سول سوسائٹی نیٹ ورک کے رکن قمر نسیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افضل کے خاندان کو مقامی پولیس پر اعتبار نہیں ہے لہذا ان کا کیس کرائم برانچ کے سپرد کیا جائے اور ان کے چار بھائیوں اور پانچ لڑکیوں کے قتل کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمشن تشکیل دیا جائے۔
قمر نسیم نے کہا کہ صوبے میں غیرت کے نام پر قتل کے جتنے بھی واقعات ہو رہے ہیں ان کے طریقہ واردات اور تفتیشی کمزوریوں کو دیکھا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ ملزمان کیوں سزاؤں سے بچ جاتے ہیں اور یہ معاملات کیوں عدالتوں اور قانون سے پوشیدہ رہتے ہیں۔