بھارت کی حکومت کی جانب سے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خود مختار ریاستی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے پر بھارتی اخبارات نے اداریوں میں ملے جلے ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے۔
دی ہندو
آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-اے کی منسوخی کے اعلان پر منگل کو بھارتی اخبار 'دی ہندو' نے "جموں و کشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کا غلط طریقے سے خاتمہ" کے عنوان سے اداریہ لکھا ہے۔
اداریے کے مطابق بھارت کے آئین میں جموں و کشمیر کو دیے گئے خصوصی درجے کو بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق منسوخ کردیا ہے۔
اداریے میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کو دیا گیا خصوصی درجہ حکومت کے لیے ایک رخنہ تھا نہ کہ اس علاقے کو باقی ملک سے جوڑے رکھنے کی ایک وجہ۔
جموں و کشمیر کو مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام کرنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اخبار نے لکھا ہے کہ مرکز کی طرف سے ریاستی حکومت کی سفارش کے بغیر ریاست کو دو الگ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
اداریے کے مطابق اگر جموں و کشمیر کو دیا گیا درجہ ختم کرنا ہی تھا تو اسے اتفاقِ رائے سے ختم کیا جانا چاہیے تھا۔ مرکزی حکومت کے اس فیصلے سے کشمیریوں کو حقِ رائے دہی سے محروم کردیا گیا ہے۔
'دی ہندو' نے اپنے صفحۂ اول پر شہ سرخی لگائی ہے کہ "جموں و کشمیر نے خصوصی حیثیت کھو دی، مرکز کے زیرِ انتظام دو حصوں میں تقسیم۔"
اخبار نے آرٹیکل 370 میں کی جانے والے تبدیلیوں کی تفصیلات کے علاوہ رکن لوک سبھا پی چدم برم کی سرخی لگائی۔ جنہوں نے آرٹیکل 370 کو 'ایک مہلک قانونی غلطی' قرار دیا۔
ہندوستان ٹائمز
'ہندوستان ٹائمز' نے صفحہ اول کے ساتھ ایک اضافی صفحہ 'پیج ون پلس' چھاپا ہے جس میں بھارت کی مرکزی حکومت کے اس اقدام کی نو وجوہات بتائی گئی ہیں۔
صفحہ اوّل پر ایک تصویر میں بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کو مہاراجہ جموں و کشمیر ہری سنگھ کے ساتھ ہاتھ ملاتے دیکھا جا سکتا ہے جب کہ دوسری تصویر میں وزیرِ اعظم نریندر مودی جموں و کشمیر سے متعلق بل پاس ہونے کے بعد وزیرِ داخلہ امیت شاہ سے ہاتھ ملاتے دکھائے گئے ہیں۔
'ہندوستان ٹائمز' نے صفحہ اوّل پر خبر لگائی ہے کہ عمران خان کے دورۂ امریکہ کی وجہ سے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے عمل میں تیزی آئی۔
دوسری جانب "بی جے پی کا اقدام جرات مندانہ ہے لیکن اس کے مضمرات بھی ہیں" کے عنوان سے اپنے اداریے میں اخبار نے لکھا ہے کہ کشمیر میں بہت عرصے سے ترقی نہیں ہو رہی تھی، کشمیر سیاسی شورش کا شکار تھا اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی اور مذہبی گروہوں کے لیے کھیل کا میدان بن چکا تھا۔ اب یہ سب کچھ بند ہو جائے گا۔
اخبار کی طرف سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے لیے اپنائے گئے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسے کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے منظور کرایا جانا چاہیے تھا۔
اداریے کے مطابق یہ اقدام کشمیری رہنماؤں کی مشاورت سے کیا جانا چاہیے تھا جن میں سے بیشتر اس وقت زیرِ حراست ہیں۔
'ہندوستان ٹائمز' نے مزید لکھا ہے کہ وزیرِ اعظم مودی اور وزیرِ داخلہ امِت شاہ کا جوّا صرف اسی صورت کامیاب ہو سکتا ہے کہ اگر کشمیر کو دیا گیا خصوصی درجہ ختم کرنے سے کشمیریوں کے لیے ترقی کے مزید مواقع پیدا ہو سکیں اور خوش حالی آئے۔
انڈین ایکسپریس
ہندوستانی اخبار 'انڈین ایکسپریس' نے صفحہ اوّل پر شہ سرخی لگائی ہے "تاریخ، ایک ضرب میں۔"
اخبار کے صفحۂ اوّل پر آٹھ کالم تصویر میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کو اسمبلی میں وزیرِ داخلہ امت شاہ سے ہاتھ ملاتے دیکھا جاسکتا ہے۔
اخبار نے 'تاریخ میں توڑ پھوڑ، مستقبل کی تعمیر' کے عنوان سے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ حکومت کا جموں و کشمیر کو دیے گئے خصوصی درجے کو ختم کرنے سے انتہا پسند جماعتوں کا 70 سالہ منصوبہ کامیاب ہوگیا ہے۔
اداریے کے مطابق جموں و کشمیر کو دیا گیا خصوصی درجہ ملک بنانے والوں کا ذاتی فیصلہ نہیں تھا۔ اس کی بنیاد قوم کی تعمیر تھی۔ اس کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست کو تسلیم کرنا تھا۔
اداریے کے مطابق ایسے وقت میں جب پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہے، صدارتی حکم نامے کا اجرا سمجھ سے بالاتر ہے۔
'انڈین ایکسپریس' نے لکھا ہے کہ حکومت کو اس وقت کشمیر کے علاوہ دیگر چیلنجز بھی درپیش ہیں جن میں پاکستان کی مدد سے افغانستان میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات بھی شامل ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا
'ٹائمز آف انڈیا' کی ہیڈ لائن ہے "کشمیر اب وفاق کے زیرِ انتظام ہوگا۔"
اخبار نے اداریے میں کہا ہے کہ حکومت کے اس اقدام نے مستقبل میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کی راہ متعین کر دی ہے۔
'ٹائمز آف انڈیا' نے مزید لکھا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ ستمبر تک افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ان کی مدد کرے۔ جس کی وجہ سے اسلام آباد نے امریکہ کے صدر کے سامنے کشمیر کا تنازع رکھا۔
اداریے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت ختم ہوگئی ہے اور اب نئی دہلی کی اسلام آباد کے ساتھ پوزیشن بھی تبدیل ہوجائے گی جو کہ کشمیر کو ہمیشہ دو طرفہ تصفیہ طلب تنازع گردانتا ہے۔
روزنامہ انقلاب
بھارت میں اردو زبان میں چھپنے والے روزنامہ 'انقلاب' نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے اس دفعہ کو بے اثر کرنے کا عاجلانہ فیصلہ جمہوری اقدار اور روایات کے منافی ہے۔
اداریے میں مزید لکھا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیرِ انتظام، مرکزی حکومت کے اختیارات میں اضافہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ریاست کے اختیارات محدود ہوجائیں گے اور مشکلات پیدا ہوں گی۔