پاکستان کی سپریم کورٹ نے برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع کی منظوری دے دی ہے۔
اٹارنی جنرل انور منصور خان کی جانب سے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق جمعرات کو عدالت میں نئی دستاویزات پیش کی گئیں، جس کا جائزہ لینے کے بعد، سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق اپنا مختصر فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ حکومت نے مسلح افواج کے قوانین میں ترامیم کے لیے چھ ماہ کا وقت مانگا ہے۔ ہمارے سامنے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن جمع کرایا گیا اور ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا توسیع دی جا سکتی ہے یا نہیں۔
عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ محدود یا معطل کرنے کا نوٹی فکیشن میں کہیں ذکر نہیں۔ عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ پارلیمنٹ پر چھوڑتی ہے اور پارلیمنٹ طے کرے گی کہ مدت کتنی ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران کہا کہ وفاقی حکومت اس تقرری پر ایک سے دوسرا موؑقف اپناتی رہی اور آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق کوئی قانونی شق نہیں دکھائی گئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ آج ان لوگوں کے لیے بہت مایوسی کا دن ہے جو ملک میں عدم استحکام اور اداروں کے درمیان لڑائی دیکھنا چاہتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بیرونی دشمنوں کے ساتھ اس مافیا کے لیے بھی مایوسی کا دن ہے جنہوں نے لوٹی ہوئی رقم بیرونِ ملک منتقل کی اور اس لوٹی دولت کو بچانے کے لیے وہ ملک میں عدم استحکام چاہتے تھے۔
'آرمی ایکٹ میں تبدیلی کریں گے'
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق نئی سمری اور بیان حلفی عدالت میں پیش کیا اور یقین دہانی کرائی ہے کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر اس میں ضروری تبدیلیاں کریں گے۔
یاد رہے کہ جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت آج رات 12 بجے مکمل ہو رہی ہے۔ اس سے قبل حکومت نے اُن کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کی تھی جسے ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو مسلسل تیسرے روز آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل بھی شامل تھے۔
اعلیٰ عدالت میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کی آرمی ایکٹ میں یقین دہانی کے بعد چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آرمی چیف کی تقرری، تعیناتی اور توسیع سے متعلق چھ ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرا لیں جب کہ آرمی چیف کی تقرری کی سمری میں ابہام ہے۔ اس سے متعلق نئی سمری جاری کریں اور اس میں تین سال کی مدتِ ملازمت کے الفاظ حذف کریں۔
بدھ کو سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ کے طلب کیے جانے پر سابق آرمی چیف راحیل شریف اور اشفاق پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا۔ اگر جنرل راحیل شریف ریٹائر نہیں ہوئے تو پنشن نہیں ملے گی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کر دی گئی ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آج ہونے والی تعیناتی پہلے سے کیسے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نئی تعیناتی آرٹیکل 243 ون بی کے تحت کی گئی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہمیں مطمئن کرنا ہوگا کہ اب ہونے والی تعیناتی درست کیسے ہے؟ اور جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے؟
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ اپنا بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں۔ آرمی چیف کا عہدہ آئینی عہدہ ہے جسے پُر کرنا ہے تو قاعدے اور ضابطے کے تحت کیا جانا چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمری میں اگر خلا رہ گیا ہے تو اسے بہتر کریں گے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سمری سے عدالت کی ایڈوائس والا حصہ نکالیں۔ صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا۔ اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے۔ آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انور منصور خان کو کہا کہ آرمی ایکٹ اور ریگولیشنز کی کتاب آپ نے سینے سے لگا کر رکھی ہے جس پر لکھا ہے غیر متعلقہ بندہ نہ پڑھے۔ کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا حق ہے کہ سوال پوچھیں، ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے۔ آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں؟
'مدت کے تعین کا کام ہم کر لیں گے'
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ نے پہلی دفعہ کوشش کی ہے کہ آئین پر واپس آئیں۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ نہیں دینا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دے کر ایسا لگتا ہے کہ ہمارا کندھا استعمال کیا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ قوانین تین ماہ میں تیار کر لیں گے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تین ماہ میں قوانین تیار ہو گئے تو پھر آرمی چیف کو تین ماہ کی توسیع مل جائے گی۔ کیا ہم آپ کی بات پر لکھ دیں کہ تین ماہ میں قوانین بنا دیں گے، جس پر اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو کہا کہ آپ اپنے فیصلے میں مدت کا تعین نہ لکھیں وہ کام ہم کرلیں گے۔ قوانین بنانے کے بعد انہیں پارلیمنٹ میں بھی پیش کرنا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آپ ہمیں بیان حلفی دیں کہ چھ ماہ میں قانون میں ترمیم کر دیں گے اور قانون میں ترمیم چیف آف آرمی اسٹاف کی تقرری، دوبارہ تعیناتی اور توسیع سے متعلق ہوگی۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ آج فل کورٹ بیٹھے گا تب تک آپ نئی سمری تیار کر کے لے آئیں اور اس میں سے تین سال کی مدت ملازمت کے الفاظ حذف کریں۔ ہم شام کو مختصر آرڈر جاری کریں گے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مزید کہا کہ اگر آپ سمری میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں تاریخ کا تعین نہیں لکھیں گے تو اس کے ذمہ دار آپ ہوں گے اور جو کچھ کارروائی میں ہوا ہے ہم ریکارڈ کا حصہ بنا دیں گے۔