پوری دنیا میں لاک ڈاؤن ہے اور کاروبار کا پہیہ نہیں چل رہا۔ سعودی عرب اور روس مستقبل قریب میں پیداوار کم کرنے پر راضی ہو گئے ہیں لیکن اس وقت مارکیٹ میں اضافی تیل موجود ہے۔ اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے؟
اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ میں تیل کی قیمت گرتے گرتے اس مقام پر آ گئی ہے کہ پیداواری کمپنیاں اپنے صارفین کو تیل وصول کرنے کے لیے پیسے دینے کو تیار ہیں۔ تاریخ میں پہلی بار تیل کا نرخ منفی ہو گیا ہے۔
پیداواری کمپنیوں کی گھبراہٹ بے وجہ نہیں ہے۔ امریکہ میں تیل ذخیرہ کرنے کے مقامات بھرتے جا رہے ہیں اور اپریل کے آخر تک تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہوں گے۔ اس کے بعد ایک مرحلہ ایسا آئے گا کہ تیل رکھنے کی جگہ نہیں ہو گی۔
کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی طرح امریکہ میں بھی عوام کو گھر پر رہنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔ لوگ سفر نہیں کر رہے اور دفاتر اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ اس کی وجہ سے تیل کی کھپت انتہائی کم ہو چکی ہے لیکن رسد میں کمی نہیں آئی۔
امریکہ میں تیل کی قیمتوں کا بینچ مارک ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کو سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ایک بیرل کی قیمت پیر کو منفی 37 ڈالر 63 سینٹ تک گر چکی تھی۔ جون کے سودے بھی کم نرخوں پر ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں ایک بیرل کی قیمت 20 ڈالر اور عالمی منڈی میں 26 ڈالر سے کم ہے۔
عالمی منڈی میں تیل کا نرخ مستقبل کے سودوں پر ہوتا ہے۔ مئی کے سودے منگل 21 اپریل کو نمٹ جائیں گے۔ کمپنیاں چاہتی ہیں کہ وہ تیل بیچ کر جان چھڑائیں ورنہ انھیں ذخیرہ کرنے کی لاگت برداشت کرنا پڑے گی۔
پیداواری کمپنیاں اس حد تک مجبور ہو چکی ہیں کہ وہ آئل ٹینکرز یعنی تیل منتقل کرنے والے بحری جہاز کرائے پر لے رہی ہیں تاکہ تیل کو ان میں ذخیرہ کر سکیں۔
تیل کے اس عجیب بحران کا بڑا سبب یقینی طور پر کرونا وائرس ہے لیکن دوسری وجہ بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں حال میں سخت کشیدگی تھی اور وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے پیداوار بڑھانے کے اعلانات کر رہے تھے۔
اپریل کے آغاز میں کشیدگی کم ہونے کے بعد پیداوار 10 فیصد کم کرنے کا سمجھوتا ہو گیا تھا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ یعنی مئی اور جون میں تیل کی پیداوار ایک کروڑ بیرل کم ہو گی۔ اس کے باوجود دستیاب تیل کی طلب کہیں موجود نہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مستقبل قریب میں قیمتیں اور کم ہوں گی۔