صوبہ سندھ میں شاہ عبد الطیف یونیورسٹی کے شعبہ سندھی کے استاد پروفیسر ساجد سومرو کو سرکار کی مدعیت میں قائم توہین مذہب کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ عمل بعض سرکاری افسران کے ایما پر ان پر کی جانے والی تنقید کے بعد انتقاماََ کیا گیا ہے۔
ساجد سومرو کے خلاف درج ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 295، 298 اور 153 اے شامل کی گئی ہیں۔ یہ دفعات کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، کسی کے مذہبی عقائد کی جان بوجھ کر توہین کرنے، ایسے الفاظ ادا کرنے جو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاتے ہوں اور جان بوجھ کو ایسی فضا بنانے جس میں فسادات برپا ہونے کا اندیشہ ہو، سے متعلق ہیں۔
اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس غلام نبی ناریجو کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ انہیں مخبر کے ذریعے اطلاع ملی کہ ساجد سومرو مذہبی احساسات کو مجروح کرنے، مذہبی فرقہ واریت اور لوگوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق پولیس کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ساجد سومرو پاکستان کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کرتے رہے ہیں۔
پولیس نے مقدمہ درج کرنے کے بعد پروفیسر سومرو کو خیر پور کی فیض آباد کالونی میں ان کے گھر پر چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا۔
جمعرات کو عدالت نے پروفیسر ساجد سومرو کے کیس کی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے انہیں پولیس کی تحویل میں دے دیا۔ لیکن ساجد سومرو کے قریبی دوست خیرپور بار ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری اور ان کے وکیل فیاض خمیسانی ایڈووکیٹ نے الزام عائد کیا کہ پروفیسر ساجد سومرو کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے سرکاری اثر و رسوخ استعمال کیا گیا۔
فیاض خمیسانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ساجد سومرو نے حال ہی میں سندھ ادبی سنگت کے سیکریٹری جنرل پر سوشل میڈیا پر سخت تنقید کی تھی جس کے بعد انہیں جان بوجھ کر مذہبی جذبات کو ابھارنے کے جھوٹے مقدمے میں الجھایا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پروفیسر ساجد سومرو نے کبھی مذہبی جذبات کو ابھارنے اور فرقہ واریت پھیلانے کی کوشش نہیں کی۔
فیاض خمیسانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ توہینِ مذہب کا کیس دائر کرنے سے قبل علاقے کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سے اس کی اجازت حاصل کرنی ضروری ہے تاکہ پولیس کے اعلیٰ افسران اس بات کو دیکھیں کہ اس قانون کا کسی کے خلاف غلط استعمال تو نہیں کیا جا رہا۔ لیکن اس اہم ترین قانونی تقاضے کو پورا کیے بغیر ہی ایف آئی آر دائر کرنا بدنیتی کی نشاندہی کرتی ہے جب کہ کیس میں کوئی مدعی بھی نہیں ہے۔
دوسری جانب وائس آف امریکہ نے سندھ ادبی بورڈ کے سیکریٹری جنرل احمد سولنگی کا موقف حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
احمد سولنگی نے فیس بک پر ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ پروفیسر ساجد سومرو سے ان کے اختلافات کے باوجود وہ ان کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیس کمزور بنیادوں پر قائم کیا گیا ہے اور اس کا تعلق ان کے ذاتی جھگڑے سے بالکل نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے دوستوں سے بھی درخواست کی ہے کہ اس معاملے میں سندھی ادبی سنگت اور اس کے وقار کو نقصان نہ پہنچایا جائے کیونکہ سندھ، سندھی زبان اور ادبی سنگت ہمارے ذاتی اختلافات سے اوپر ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کی مقدمے کے اندراج کی مذمت
پروفیسر ساجد سومرو کے خلاف کیس درج کرنے پر سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنوں اور اساتذہ کی جانب سے شدید مذمت کی جارہی ہے۔
معروف سماجی کارکن اور انسانی حقوق کے رہنما امر سندھو کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے اس دلیل کو تقویت ملتی ہے کہ توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔
ان کے بقول توہین مذہب کے قوانین پر بات کرنے کو بھی جرم قرار دیا جاتا ہے۔
امر سندھو کا کہنا تھا کہ آئینی ماہرین اور قانون دانوں کو کم از کم اس پر بات کرنے کی اجازت تو دی جانی چاہیے کہ کس طرح اس قانون کا غلط استعمال روکا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات حقائق کو اس طرح مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انسانوں کے بنائے گئے قانون پر بات کرنا ہی توہین مذہب ہے۔
انسانی حقوق کی متحرک کارکن پروفیسر ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے پروفیسر ساجد سومرو کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی مذمت کرتے ہوئے توہین مذہب کے قوانین کے استعمال کو ہدف تنقید بنایا ۔
ٹوئٹر پر ایک ٹوئٹ میں پروفیسر ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے کہا کہ وہ اس قانون کی شدید مخالفت کرتی ہیں۔
توہین مذہب کے قوانین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ زیادہ تر ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے اس بیان پر جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی - ف) کے حیدرآباد کے کارکنوں کی جانب سے پولیس کو ایک الگ درخواست جمع کرائی گئی ہے جس میں ان کے خلاف توہین مذہب کے قوانین کے تحت مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
پروفیسر ساجد سومرو کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کے تحت مقدمے کے اندراج اور ڈاکٹر عرفانہ ملاح کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا ہے کہ سیاسی تعلق رکھنے والے بعض مولویوں کی جانب سے چلائی جانے والی یہ مہم قابل مذمت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر ساجد سومرو اور پروفیسر ملاح نے اظہار رائے کے بنیادی حقوق کو استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور جرم نہیں کیا۔
ان کے بقول جو شہری بولنے کی جرات کرتے ہیں ان کے خلاف توہین مذہب اور بغاوت کے الزامات عائد کرنا خوف ناک حد تک عام ہوتا جا رہا ہے۔ یہی کچھ اس سے قبل جنید حفیظ، مشال خان اور پروفیسر خالد حمید کے کیسز میں بھی ہو چکا ہے۔
کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ توہین مذہب اور بغاوت کے قوانین کے غلط استعمال کو آزاد آوازوں کو خاموش کرانے اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنے سے روکا جائے جب کہ شہریوں کی حفاظت کو ممکن بنایا جائے۔
پاکستان میں توہین مذہب کو انتہائی حساس موضوع سمجھا جاتا ہے اور ان قوانین کے غلط استعمال پر انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور کئی ممالک کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم کئی مذہبی طبقات کی جانب سے اس پر بحث کی شدید مخالفت کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان میں مذہبی آزادی پر قد غن پر عالمی تشویش
عالمی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال یعنی 2019 میں پاکستان میں مذہبی آزادی کا رجحان مستقل طور پر منفی رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ توہین رسالت اور احمدی مخالف قوانین کا منظم اطلاق اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے جبراََ مذہب تبدیل کروانے کا سدباب کرنے میں حکام کی ناکامی نے مذہب یا عقیدے کی آزادی کو محدود کیا ہے۔
رپورٹ میں امریکی حکومت کو دی گئی سفارشات کے مطابق پاکستان کو مذہبی آزادی سے متعلق خصوصی تشویش والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا جانا چاہیے۔
رپورٹ میں توہین رسالت کے قوانین کو قابل ضمانت جرم بنانے کے لیے اصلاحات، سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے قومی کمیشن کی تشکیل جب کہ شناختی دستاویزات سے مذہب سے متعلق معلومات نکالنے کی تجاویز دی گئی ہیں۔