پاکستان میں اس ہفتے سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر فیصل واوڈا اور اینکر پرسن عمران خان کے رویے توجہ کا مرکز بنے رہے۔
ایک طرف سیاسی رہنما کے صحافیوں سے رویے کی مذمت کی گئی اور دوسری جانب ایک میڈیا کارکن کے سیاسی رہنما سے سلوک کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
وفاقی وزیر فیصل واوڈا آئے دن صحافیوں سے الجھتے رہتے ہیں اور انھیں برے ناموں سے پکارتے ہیں۔ چند دن پہلے انھوں نے ڈان کے صحافیوں مبشر زیدی، ضرار کھہڑو اور وسعت اللہ خان کو مسلم لیگ ن کا ٹاؤٹ کہا۔ اس کے بعد سرل المیڈا کو جوکر قرار دے ڈالا۔
30 جون کو دی نیوز کے رپورٹر فخر درانی نے ایک پرانی خبر شئیر کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ فیصل واوڈا کی امریکی شہریت کے بارے میں خبر کو شائع ہوئے چھ ماہ گزر چکے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
اس کے جواب میں فیصل واوڈا نے فخر درانی کو چھوٹے کہہ کر مخاطب کیا اور جنگ گروپ کے مالک شکیل الرحمان کہ وہ فراڈ اور چور ہیں۔
فخر درانی کے کولیگ عمر چیمہ نے ٹوئیٹ کیا کہ اگر نیب آزاد ہوتا تو میر شکیل الرحمان کے بجائے فیصل واوڈا جیسے لوگ اندر ہوتے۔ اس پر فیصل واوڈا نے انھیں میر شکیل الرحمان کا ٹشوپیپر کہہ کر پکارا اور کہا کہ "پہلے بھی انھیں حرکتوں کی وجہ سے پبلک سے سر منڈوایا اور جوتے کھائے۔"
فیصل واوڈا کا اشارہ اس واقعے کی جانب تھا جب عمر چیمہ کو نامعلوم افراد نے اغوا کرکے تشدد کیا اور زبردستی ان کے بال اور بھنوئیں مونڈ دیں۔ اس واقعے کے ذمے داروں کو آج تک گرفتار نہیں کیا جاسکا۔ پاکستان میں بعض لوگ اس کا الزام ایک خفیہ ایجنسی پر لگاتے ہیں۔
عمر چیمہ بین الاقوامی سطح پر ایوارڈ یافتہ صحافی ہیں اور پاکستان میں پاناما پیپرز اسکینڈل سامنے لانے میں ان کا مرکزی کردار تھا۔
فخر درانی اور عمر چیمہ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے پر سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے فیصل واوڈا کی مذمت کی اور ان کے رویے کو سیاست دان کے درجے سے گرا ہوا کہا۔
سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے لکھا کہ ایک پاکستانی وزیر ایک صحافی کا مذاق اڑا رہا ہے اور اسے یاد دلارہا ہے کہ اسے انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اغوا کرکے تشدد کیا تھا۔ کتنے شرم کی بات ہے۔
خالد حمید فاروقی نے لکھا کہ سب سے زیادہ کرپٹ فیصل واوڈا دوسروں کو کرپشن کا الزام دے رہے ہیں اور سوال پوچھنے پر صحافیوں کو دھمیاں دے رہے ہیں۔
بعد میں راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس نے ایک بیان جاری کیا جس میں فیصل واوڈا کی بدزبانی کی مذمت کی اور وزیراعظم سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب نیوز چینل جی این این کے اینکرپرسن عمران خان کے اس رویے پر کڑی تنقید کی گئی جو انھوں نے پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی پلوشہ خان کے ساتھ اختیار کیا۔
اس پروگرام کا جو کلپ سوشل میڈیا پر موجود ہے اس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پلوشہ خان اینکرپرسن سے کہتی ہیں کہ آپ سندھ کی وکالت نہ کریں۔ آپ کی بات کیا صحیفہ ہے؟ لیکن پھر ان کی آواز سنائی نہیں دیتی اور اینکرپرسن عمران خان چلا چلا کر کہتے ہیں کہ یہ بدمعاشی نہیں چلے گی۔ میں آپ کو چڑھائی نہیں کرنے دوں گا۔ مائیک اتاریں اور یہاں سے چلی جائیں۔ میرے منہ نہ لگیں۔
پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے اینکرپرسن کے بارے میں کہا کہ اس کا رویہ احترام نہ کرنے والا، غیر پیشہ ورانہ، متعصب اور اختیار کا ناجائز استعمال تھا جس کا اظہار کرتے ہوئے پلوشہ خان کا مائیک بند کیا گیا اور انھیں پروگرام سے جانے کو کہا گیا۔ انھیں پلوشہ خان سے معافی مانگنی چاہیے یا چینل کو نوٹس لینا چاہیے۔
تجزیہ کار مرتضیٰ سولنگی نے ٹوئیٹر پر لکھا کہ یہ ہائبرڈ مخلوق سنجیدگی سے سمجھتی ہے کہ اسے دوسروں کی بے عزتی کا حق حاصل ہے۔ آپ اس اینکرز کلب کے ارکان کا تکبر محسوس کرسکتے ہیں۔
ریحام خان نے لکھا کہ اینکرپرسن کی زبان اور رویہ صحافت کی اخلاقیات کے منافی اور فاشزم کے رویوں کے مطابق ہے۔
صحافیوں کے لیے تربیتی ورکشاپس منعقد کرنے والی جی این این کی سابق اینکر ناجیہ اشعر نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحافتی تربیت کا نہیں، گھر کی تربیت کا معاملہ ہے۔