تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدہ ہونے والے دو مؤثر دھڑے دوبارہ تحریک میں ضم ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دونوں دھڑوں کے اہم کمانڈروں نے تحریک کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ کالعدم شدت پسند تنظیم کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود کے 2009 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے جنگجو کمانڈر عبدالولی مہمند کی قیادت میں ایک گروہ نے علیحدہ کارروائیاں شروع کی تھیں۔
بعد ازاں اس گروہ نے 'جماعت الاحرار' کا نام اختیار کر لیا تھا۔ جب کہ نومبر 2013 میں حکیم اللہ محسود کے امریکی ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد جب ملا فضل اللہ تنظیم کے سربراہ بنے، تو محسود جنگجوؤں نے شہر یار محسود کی قیادت میں ٹی ٹی پی حکیم اللہ محسود کے نام سے ایک علیحدہ دھڑا بنایا تھا۔
گزشتہ دس دن کے دوران ان دونوں دھڑوں کے سربراہوں نے اپنی اپنی عسکری تنظیمیں تحریک طالبان پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جب کہ جنگجوؤں نے مفتی نور ولی محسود کی قیادت میں مشترکہ کارروائیاں شروع کرنے کا بھی اعلان کیا۔
حکیم اللہ محسود کے بھائی اعجاز محسود اور چچا رسول محمد محسود نے پہلے ہی ایک معاہدے کے تحت اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق دونوں اپنے وفادار جنگجوؤں کے ہمراہ جنوبی وزیرستان میں اپنے آبائی علاقے میں واپس جا چکے ہیں۔
خیال رہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے تین دھڑوں کے یکجا ہونے پر حکومت یا سیکیورٹی اداروں کا ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔ البتہ ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات کے لیے سرحد پار روپوش ٹی ٹی پی سمیت دیگر تنظیموں کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔
منگل کو لاہور سے گرفتار کیے گئے مبینہ دہشت گردوں کا تعلق بھی 'جماعت الاحرار' سے بتایا گیا تھا۔ گرفتار افراد میں ایک 17 سالہ مبینہ خودکش بمبار بھی شامل تھا، جس نے مقامی میڈیا کی رپوٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسز کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ وہ عمر خراسانی کے حکم پر لاہور پولیس لائنز پر حملہ کرنے والا تھا۔ عمر خراسانی ٹی ٹی پی میں ضم ہونے والی تنظیم 'جماعت الاحرار' کے سربراہ تھے۔
تحریکِ طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے اس اتحاد کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ احسان اللہ احسان نے ایک معاہدے کے تحت 4 اپریل 2017 کو خود کو حکومت کے حوالے کیا تھا۔ مگر بعد میں معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر 11 جنوری 2020 کو پشاور میں حکومتی تحویل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
احسان اللہ احسان نے کہا کہ ان گروہوں کا متحد ہونا خطے میں نئے حالات کی طرف پیش قدمی ہے اور اس کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اداروں اور عہدیداروں نے عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کے دعوے کیے تھے۔ اب اگر وہ دوبارہ جمع ہو رہے ہیں تو ان کا جمع ہونا ان دعوؤں کی نفی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کی پالیسی کسی بھی طور پر پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی نہیں ہو گی۔ ٹی ٹی پی جنگ ہی کو ترجیح دے گی۔ اگر مفاہمت کا کوئی امکان تھا تو وہ عمر خراسانی کے ٹی ٹی پی میں دوبارہ شامل ہونے سے ختم ہو گیا ہے۔
احسان اللہ احسان کے بقول عمر خراسانی کبھی بھی مفاہمت کے حامی نہیں رہے۔ انہوں نے ہمیشہ جنگ ہی کو ترجیح دی ہے۔
جماعت الاحرار کے سابق ترجمان ڈاکٹر عبدالعزیز یوسف زئی نے وائس آف امریکہ کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ اتحاد کے بعد مزاحمت میں شدت آئے گی۔
ان کے مطابق ٹی ٹی پی حکومت کے خلاف مزاحمت پر یقین رکھتی ہے مصالحت پر نہیں۔ ماضی میں مذاکرات کے نام پر پاکستان کی فوج نے ان کے ساتھ دھوکے کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سرحد پار افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے درمیان مصالحت کا تحریک طالبان پاکستان پر کسی قسم کا اثر نہیں ہو گا۔ جب کہ تحریک طالبان پاکستان کے مختلف دھڑوں کے درمیان اتحاد بھی اندرونی معاملہ ہے۔
خیال رہے کہ اس اتحاد کے بعد شدت پسند تنظیم داعش کے علاوہ تمام گروہ اب تحریک طالبان پاکستان میں شامل ہو چکے ہیں۔
90 کی دہائی کے وسط میں جب افغانستان میں طالبان کی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں، مولانا سمیع الحق کی جمعیت علماء اسلام (جے یو آئی۔ س) نے نہ صرف ان سرگرمیوں کی حمایت کی تھی بلکہ اس تنظیم کے سابق سربراہ ملا عمر سمیت دیگر رہنماؤں اور جنگجو کمانڈروں کی سرپرستی بھی کی تھی۔
اسی طرح جب 2007 کے آخر میں ملا بیت اللہ محسود کی قیادت میں پاکستانی جنگجوؤں نے تحریکِ طالبان پاکستان قائم کی، تو جمعیت علماء اسلام (س) نے اس کا بھی خیرمقدم کیا تھا۔
مئی 2013 میں انتخابات کے بعد وفاق میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت قائم ہوئی، تو مولانا سمیع الحق نے طالبان کی نمائندگی کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے۔ تاہم یکم نومبر 2013 کو حکیم اللہ محسود کی مبینہ امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد مذاکرات کا یہ سلسلہ کسی بھی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہو گیا تھا۔ مولانا سمیع الحق دو نومبر 2018 کو راولپنڈی میں پراسرار طور پر ہلاک ہوئے تھے۔
جمعیت علماء اسلام (س) کے مرکزی رہنما مولانا یوسف شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شدت پسند تنظیم کے مختلف دھڑوں کے اتحاد پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب سے شدت پسند تنظیم کے کمانڈر اور رہنما سرحد پار افغانستان گئے ہیں تو ان کے ساتھ رابطہ منقطع ہے۔ تاہم انہوں نے اس اتحاد کو پاکستان کے لیے خوش آئندہ قرار دیا۔ اور امید ظاہر کی کہ اس اتحاد کے حکومت سے مذاکرات بھی ممکن ہو سکتے ہیں۔
شدت پسند تنظیم کے اس اتحاد پر مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہد خان کا کہنا ہے کہ طالبان کبھی بھی ختم نہیں ہوئے۔
زاہد خان نے کہا کہ نہ صرف سرحد پار افغانستان میں، بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں طالبان موجود ہیں۔ اگر کچھ ممالک یا ان ممالک کے ادارے طالبان کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ تو ملک کے اندر بھی ان لوگوں کی سر پرستی کی جا رہی ہے۔
زاہد خان نے یہ واضح نہیں کیا کہ پاکستان میں ان کی سرپرستی کون کر رہا ہے۔ البتہ انہوں نے طالبان کے متحد ہونے کو پاکستان اور افغانستان کے لیے خطرناک قرار دیا۔
نیشنل پارٹی خیبر پختونخوا کے صدر مختار باچا نے بھی اس اتحاد کو باعثِ تشویش قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ان شدت پسندوں کو کون اور کس لیے متحد کر رہا ہے؟
عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا ہے کہ ضربِ عضب کے نتیجے میں طالبان ختم نہیں ہوئے تھے بلکہ منتشر ہوئے تھے اور وہ اب نہ صرف دوبارہ سرگرم بلکہ متحد بھی ہو رہے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ گزشتہ دو سال سے قبائلی اضلاع کے لوگ بار بار کہہ چکے ہیں کہ طالبان دوبارہ واپس آ رہے ہیں مگر حکومت اور حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
جمعیت علماء اسلام (س) کے علاوہ کسی بھی مذہبی جماعت اور گروہ نے ابھی تک شدت پسند تنظیم کے متحد ہونے پر رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
خیال رہے کہ 13 سال قبل قائم ہونے والی تحریک طالبان پاکستان کے سربراہان ملا بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود اور ملا فضل اللہ سمیت زیادہ تر جنگجو مبینہ طور پر امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے تھے۔