پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پاکستان کو بیرونی دشمن کے مقابلے میں اندرونی دشمن یعنی دہشت گرد گروہوں اور دہشت گردوں سے زیادہ خطرہ ہے۔ یہ دہشت گرد کون ہیں ؟ اکثر انہیں عسکریت پسند یا انتہاپسند لکھا اور پڑھا جاتا ہے مگر اصل عسکریت پسند ہیں کون ، اس کا تذکرہ کم ہی ملتا ہے۔
یورپی یونین کے اشتراک سے چلنے والے خبر رساں ادارے آئی آر آئی این یعنی Integrated Regional Information Networks کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت شمالی پاکستان میں عسکریت پسندوں کے کم از کم نو گروپ نہ صرف پاکستانی و امریکی فوج سے برسر پیکر ہیں بلکہ یہ آپس میں بھی گتھم گتھا ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مسلح گروہ تحریک طالبان سے علیحدہ ہوئے ہیں اور اس وقت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یا پھر ان سے ملحقہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ یہ گروہ افغانستان میں طالبان کے رہنما ملا عمر کے وفادار ہیں تاہم ان کی وفاداریوں کا پیمانہ کم و زیادہ ہوسکتا ہے مگر یہ سب کے سب جس ایک نقطے پر متفق ہیں وہ ہے پاکستان میں شرعی قوانین کا نفاذ اور خطے سے امریکی فوجوں کا انخلا۔
رپورٹ میں ان عسکری تنظیموں کے بارے میں جو تفصیل درج ہے ، وہ کچھ یوں ہے:
تحریک طالبان پاکستان
تحریک طالبان پاکستان ،روایتی طور پر جنوبی وزیرستان کی قبائلی پٹی میں سرگرم عمل ہے ۔ اسے حرف عام میں محسود گروپ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اگست دوہزار نو میں امریکی ڈورن حملے کے نتیجے میں اس تحریک کا رہنما بیت اللہ محسود مارا گیا جس کے بعد یہ گروہ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ٹی ٹی پی کو اس وقت حکیم اللہ محسود چلا رہا ہے ۔ یہ گروہ اپنے آبائی علاقے اورکزئی ایجنسی سے آپریٹ ہوتا ہے اوریہیں اس کا سب سے زیادہ اثر ورسوخ ہے جبکہ طالبان کے دیگر دھڑے خیبر ایجنسی سے چلائے جاتے ہیں۔
اس گروپ کے اہداف میں خود کش بمباری کے ذریعے پاکستانی فوج اور شہریوں کو نشانہ بنانا ہے ۔ محسوداور دیگر قبائل تحریک طالبان پاکستان سے وفادار ہیں اور اس گروپ کو غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
ملا نذیر گروپ
ملانذیر گروپ زیادہ تر جنوبی وزیرستان میں سرگرم ہے۔ پاکستانی فوج اور شہریوں کو نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی فوج کے مفادات کو نقصان پہنچانا اس کے اہداف میں شامل ہے۔ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے قریب بسنے والے وزیر قبائل ملانذیر گروپ کے حمایتی ہیں۔ یہ گروپ حقانی نیت ورک کے ساتھ ساتھ ملا عمرسے بھی گہرے روابط رکھتا ہے۔
ترکستانی بھٹانی گروپ
یہ گروہ بھی زیادہ تر جنوبی وزیرستان میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس گروپ کے بیت اللہ محسود سے بہت گہرے روابط تھے مگر پھر اچانک دوہزار سات میں یہ روابط دشمنی میں بدل گئے۔ اب دونوں گروہوں کے راستے جدا جدا ہیں۔ یہ گروہ کبھی کبھار ہی افغانستان میں امریکی فوج کو نشانہ بناتا ہے جبکہ پاکستانی فوج اور شہریوں کو اس گروپ سے کوئی خطرہ نہیں۔
اس گروہ کے معاملات کو ترکستان بھٹانی نام کا شخص چلاتا ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ گروہ رہنما کے نام سے منسوب ہے جبکہ بھٹانی قبائل اس کے بھرپور حمایتی ہیں۔
حقانی نیٹ ورک
یہ شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والا گروہ ہے ۔ امریکی فوجیں اس کا خاص الخاص ہدف ہیں۔ افغانستان کے صوبہ خوست میں رہنے والے زردان قبائل حقانی نیٹ ورک کے حمایتی ہیں۔ اس گروہ کو قبائلی 1979ء میں افغانستان پر سوویت فوجوں کے حملے کے وقت سے ہی مجاہدین کا سب سے طاقتور گروہ تسلیم کرتے ہیں اور اس کا قبائل میں بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔ اسے القاعدہ اور غیر ملکی عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ملا عمر سے بھی رابطے ہیں ، لیکن یہ گروپ اپنی حکمت عملی آزادانہ طور پر تشکیل دیتا ہے۔
گل بہادر گروپ
اس کی سرگرمیوں کا مرکز شمالی وزیرستان ہے۔ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج اور افغانستان میں امریکی فوج اس کے اہداف ہیں۔ شمالی وزیرستان اور خاص طور سے میرانشاہ کے قصبوں میں رہنے والے دراور وزیر قبائل اس گروہ کی حمایت کرتے ہیں۔
لشکر جھنگوی (شمالی)
تمام قبائلی علاقے خاص کر کرم اور اورکزئی کے وہ علاقے جہاں اہل تشیع آباد ہیں ، لشکر جھنگوی کی سرگرمیوں کا مرکز ہیں۔ پاکستان میں مغربی شہریوں، پاکستانی فوجیوں اورعام شہریوں خاص کر شیعہ فرقے کے ماننے والوں کو نشانہ بنانا اس گروہ کا ہدف ہیں۔ اسے صوبہ پنجاب کے شیعہ مخالف گروپوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
لشکر اسلام
اس کا خیبر ایجنسی سے تعلق ہے جبکہ اس کے اہداف میں پاکستانی شہریوں کو نشانہ بنانا شامل ہے ۔ اسے دیوبندی فرقے کے شدت پسندوں کی حمایت حاصل ہے۔
انصار الاسلام
یہ تنظیم بھی خیبر ایجنسی سے تعلق رکھتی ہے۔ افغانستان میں تعینات امریکی فوج اس کا ہدف ہے۔دیو بندی اور بریلوی دونوں فرقوں کے شدت پسند اس کے حمایتی ہیں۔ یہ خیبرپختوانخواہ میں مخالف عسکریت پسندوں سے برسر پیکر ہے۔
تحریک نفاذ شریعت محمدی
خیبرپختوانخواہ کی وادی سوات کی سرگرم عسکری تنظیم جو دیر میں بھی اپنا اثر ورسوخ چاہتی ہے۔ شہریوں خصوصاً سرکاری شخصیات جن میں اساتذہ بھی شامل ہیں انہیں نشانہ بناتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے اس کے گہرے روابط ہیں۔ یہ 1992ء میں قائم کی گئی تھی۔ سن دوہزار دو کے بعد اس تنظیم نے عسکری سرگرمیاں شروع کیں اور تبھی سے اس تنظیم کے کئی دھڑے بن چکے ہیں۔