رسائی کے لنکس

گلگت بلتستان کے انتخابات: نئی حکومت کون بنائے گا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے زیرِ انتظام گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے 23 حلقوں پر 330 امیدواروں کے درمیان 15 نومبر کو انتخابات ہوں گے جس کے لیے سیاسی جماعتیں بھرپور مہم چلا رہی ہیں۔

گلگت بلتستان میں ایک عام تاثر ہے کہ جس سیاسی جماعت کی وفاق میں حکومت ہوتی ہے وہی جماعت عمومی طور پر حکومت بناتی ہے تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مرکز میں برسرِ اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) گلگت بلتستان کے انتخابات میں سنجیدہ نظر نہیں آ رہی۔

گلگت بلتستان میں یہ انتخابات پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی پانچ سالہ مدت مکمل ہونے کے بعد ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سالہ مدت پوری کی تھی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی گلگت بلتستان کے انتخابات میں عدم دلچسپی کے بعد یہ سوال نہایت اہم ہے کہ نئی حکومت کون بنائے گا؟

گلگت بلتستان اسمبلی کی کُل 33 نشستیں ہیں جن میں سے 24 پر براہِ راست انتخابات ہوں گے جب کہ چھ نشستیں خواتین اور تین ٹیکنوکریٹس کے لیے مخصوص ہیں۔

حلقہ گلگت- 3 میں ایک امیدوار کی وفات کے باعث وہاں انتخابات 22 نومبر کو ہوں گے۔

گلگت بلتستان کے مقامی صحافی عبد الرحمان بخاری کا کہنا ہے کہ ماضی میں جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے الیکشن مہم میں حصہ لیا تھا، پی ٹی آئی اس لحاظ سے کہیں نظر نہیں آ رہی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے اب تک گلگت بلتستان کا دورہ تک نہیں کیا اور نہ ہی الیکشن سے پہلے کوئی سیاسی پیکج سامنے آیا ہے اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے 2009 میں 'گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ ایند سیلف گوررنینس آرڈر' جاری کرنے کے ساتھ ساتھ کئی اصلاحات متعارف کی تھیں۔

عبدالرحمان بخاری کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے دورِ حکومت میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں آئینی حقوق کمیٹی بنائی تھی تاکہ گلگت بلستان کے عوام کے آئینی حقوق پر کام کیا جا سکے۔

پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (ق) کے علاوہ اسلامی تحریک، مجلس وحدت المسلمین اور گلگت بلتستان کی علاقائی جماعتوں کے علاوہ بڑی تعداد میں آزاد امیدوار بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کی مجموعی آبادی تقریباً 15 لاکھ ہے اور اس کے 10 اضلاع ہیں۔ تقریباً سات لاکھ افراد رائے دہی کے استعمال کرنے کے اہل ہیں۔

سینئر تجزیہ کار اور سماجی کارکن اسرار الدین اسرار کا کہنا ہے کہ پورے گلگت بلتستان میں انتخابی مہم زور و شور پر ہے، ہر طرف سیاسی جماعتوں کے جھنڈے لہرا رہے ہیں، ریلیاں ہو رہی ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔

اُن کے بقول گلگت بلتستان میں اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان ہی ہے۔

'تنازع کشمیر کے باعث گلگت بلتستان نظر انداز ہوا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:36 0:00

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری انتخابی مہم کے سلسلے میں گلگت بلتستان کے دورے پر ہیں۔

عبدالرحمان بخاری کے مطابق بلاول بھٹو کے دورے سے پیپلز پارٹی کو فائدہ ہو رہا ہے۔ ووٹرز اُنہیں سن رہے ہیں جس کا بہت اثر ہو سکتا ہے۔

ان کے بقول ناراض ووٹرز، کارکن اور امیدواروں کو ایسے موقع پر منا لیا جاتا ہے جو الیکشن سے قبل پارٹی کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے ہیں۔

اسرار الدین اسرار کہتے ہیں گلگت بلتستان میں مقامی سطح پر بجلی، بے روزگاری، تعلیم، انفراسٹرکچر اور سب سے بڑھ کر صحت کے مسائل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں کوئی بھی اسٹیٹ آف دی آرٹ اسپتال نہیں ہے جس کی وجہ سے مقامی افراد کو علاج معالجے کے لیے اسلام آباد یا ملک کے دیگر شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی پی ٹی آئی میں شمولیت

اُن کے بقول حالیہ چند روز کے دوران مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں سے بڑی تعداد میں 'الیکٹ ایبلز' نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی ہے۔

مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اسپیکر گلگت بلتستان اسمبلی فدا محمد ناشاد، سابق وزیرِ قانون ڈاکٹر محمد اقبال، حیدر خان، سابق صوبائی وزیر ابراہیم ثنائی سمیت کئی سیاسی رہنما پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں جس کے بعد پی ٹی آئی کی پوزیشن کافی مستحکم ہو گئی ہے۔

اسرار الدین اسرار نے مزید بتایا کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان سخت مقابلے کی توقع ہے۔

ان کے بقول، "پیپلز پارٹی نے 1974 میں گلگت بلتستان سے 'ایف سی آر' کا نظام ختم کیا تھا جس کے بعد سے اب تک اس علاقے میں جتنی بھی اصلاحات ہوئی ہیں ان میں وہی پیش پیش ہے۔ اس لحاظ سے پیپلز پارٹی کی جڑیں یہاں مضبوط ہیں لیکن واضح طور پر فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس بار کون سی جماعت حکومت بنائے گی۔"

عبدالرحمان بخاری کے مطابق دیگر کئی مسائل کی طرح گلگت بلتستان کا بڑا مسئلہ آئینی حقوق کا ہے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں 10 اضلاع ہیں جو لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے نا کافی ہیں۔ اگرچہ پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنے دور حکومت میں تین نئے اضلاع کی منظوری دی تھی تاہم اب تک اس پر عمل در آمد نہیں ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "گزشتہ 73 برسوں سے گلگت بلتستان کی حیثیت متنازع رہی ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں جب کہ گلگت بلتستان وہ واحد خطہ ہے جو 73 سالوں سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تحریک چلا رہا ہے اور یہاں کے لوگوں کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔"

عبدالرحمان بخاری کہتے ہیں چین پاکستان اقتصادی راہ داری منصوبے اور عالمی سطح پر کشمیر کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کے پیش نظر اب یہاں کے عوام کو امید کی کرن نظر آ رہی ہے کہ شاید اُنہیں بھی قومی دھارے میں لا کر پاکستان کا پانچواں صوبہ بنا کر آئینی حقوق سے نوازا جائے گا۔

یاد رہے کہ گلگت بلتستان کو عبوری طور پر ملک کا پانچواں صوبہ بنانے کے حوالے سے حال ہی میں سیاسی رہنماؤں اور اعلیٰ فوجی حکام کے درمیان اتفاق ہوا تھا۔ تاہم سیاسی قیادت نے اس معاملے کو علاقے میں انتخابات کے بعد زیرِ بحث لانے کی بات کی تھی۔

XS
SM
MD
LG