پاکستان میں ایک طرف اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک جاری ہے اور دوسری جانب وفاقی کابینہ نے ریاست کے خلاف بغاوت اور جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیوں کا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمات کے اندراج کا اختیار سیکرٹری داخلہ کو دینے کی منظوری دیدی ہے۔ جب کہ صوبوں میں یہ اختیار صوبائی حکومتوں کو دیدیا گیا ہے۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلہ سے اپوزیشن کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی جائے گی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کے غلط استعمال کا خدشہ بھی موجود ہے۔
بغاوت یا غداری پر اکسانے سے متعلق حالیہ فیصلہ ہفتہ کے روز سرکاری تعطیل ہونے اور کابینہ اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے سرکولیشن سمری کے ذریعے منظور کیا گیا۔
اس فیصلہ کے مطابق ضابطہ فوجداری کے سیکشن 196 کے تحت کابینہ کے فیصلے کا اختیار سیکرٹری داخلہ کو منتقل کردیا گیا ہے۔
فیصلے کے تحت سیکرٹری داخلہ کی منظوری کے بغیر درج ہونے والے کسی بھی مقدمہ کا ٹرائل کوئی عدالت شروع نہیں کر سکے گی۔
سمری کے مطابق سیکشن 153 اے سمیت پانچ سیکشن کے تحت سیکرٹری داخلہ کی منظوری لازمی ہو گی۔ سیکرٹری داخلہ کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی منظوری سے بھی مقدمہ درج ہو سکے گا۔
سیکرٹری داخلہ کو منظوری کا اختیار دینے سے اب کسی مقدمہ کے اندراج کے لیے وفاقی کابینہ کو سمری نہیں بھجوائی جائے گی اور کارروائی جلد ممکن ہو سکے گی۔
بیرسٹر علی ظفر نے اس معاملہ پر وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نئی ترمیم کے فائدے اور نقصانات دونوں ہیں۔ اس قسم کے معاملہ میں فائدہ تو یہ ہے کہ ہر بات کے لیے معاملہ کابینہ میں نہیں جائے گا، دوسری جانب اتنے اہم مقدمے کے لیے کابینہ کی رضامندی ضروری تھی۔
بیرسٹر علی ظفر کہتے ہیں اس قانون کی قانونی حیثیت ایک الگ بحث ہے لیکن فائدہ یہ ہے کہ اگر فائلنگ کرنی ہے تو بار بار کابینہ کے پاس نہیں جانا ہو گا اور ایگزیگٹو کی سطح پر فیصلہ ہو گا۔ لیکن دوسری جانب بغاوت ایسا اہم معاملہ ہے کہ صرف کابینہ کی سطح پر ہی ہونا چاہیے کہ غلط مقدمات کا اندراج نہ ہو۔
اس سوال پر کہ کیا سیاسی بنیادوں پر اس کا استعمال کیا جا سکتا ہے بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر کابینہ ہو تو بھی اگر سیاسی استعمال کرنا ہو تو ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے سیکرٹری داخلہ کا نام ضروری نہیں۔ اس ترمیم کے فائدے اور نقصان دونوں ہی ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق صدر اکرام چوہدری نے اس معاملہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک حکومتی اختیار صرف ایک بیروکریٹ کو دے دینا درست اقدام نہیں ہے۔ ایسے فیصلے عام طور پر بیک فائر کر جاتے ہیں۔
اکرام چوہدری نے کہا کہ آئین اور قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کابینہ کا اختیار کسی ایگزیگیٹو کو دیدیا جائے۔ بے شک قانون میں ایسی گنجائش بھی موجود ہے لیکن میرے خیال میں اس اقدام کو عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اصل معاملہ آئینی اور انسانی حقوق کا ہے۔ قانون کے مطابق کسی بھی شخص کے حقوق متاثر نہیں ہونے چاہیئں۔ لیکن اس اقدام سے قانونی چینل کو نظر انداز کرنا محسوس ہو رہا ہے۔ ایگزیگٹو کو اختیار دیتے ہوئے خیال رکھنا چاہیے کہ شہریوں کے حقوق متاثر نہ ہوں اور آئین و قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔
اکرام چوہدری نے کہا کہ اس قانون کا استعمال صرف سیاست دانوں کے خلاف نہیں بلکہ کسی کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ ہر شہری کے حقوق پر اس کی زد آ سکتی ہے، لہذا سب سے پہلے یہ دیکھنا ہو گا کہ کسی ایگزیگٹو کو اختیار دیا جائے تو کسی کے شہری کے حقوق متاثر نہ ہوں۔ ایسے اقدام کبھی بھی سودمند نہیں ہوتے۔ آج اگر بدنیتی کے ساتھ کسی سیاست دان کے خلاف اس قانون کا استعمال ہو رہا ہے تو کل کو انہی کے خلاف بھی یہی قانون استعمال ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں بغاوت کے قانون سے متعلق مختلف آرا پائی جاتی ہیں اور حالیہ دنوں میں شیخ رشید احمد کے وزیر داخلہ بننے اور سخت حکومتی بیانات سے بعض سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا اطلاق اپوزیشن جماعتوں پر کیا جائے گا جو اس وقت بعض ریاستی اداروں کے خلاف سخت بیانات دے رہے ہیں۔ اس قانون کے تحت انہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا یا پھر ان کی زبان بندی کی جا سکے گی۔
پاکستان میں بغاوت اور غداری کے مقدمات نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں کئی سیاست دانوں کے خلاف ایسے مقدمات بنائے گئے۔ اس کے علاوہ کئی حکومتوں کی طرف سے مخالف سیاست دانوں کو غدار قرار دینے کا ایک سلسلہ ہے جو آج بھی جاری ہے۔
ماضی میں فاطمہ جناح کو اس وقت کی حکومت کی طرف سے غدار قرار دیا گیا۔ سابق وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو کے دور میں خان عبدالغفار خان پر غداری کے مقدمات قائم ہوئے۔ان کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے کئی سیاست دانوں پر غداری کے مقدمات قائم کیے گئے۔ جب کہ موجودہ دور میں نواز شریف پر بھی غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔