ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کی وائس چیئر پرسن جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے پاکستان کے وزیرِ اعظم کو خط لکھا ہے جس میں اُنہوں نے پاکستان میں کرونا ویکسین کی نجی اداروں کے ذریعے درآمد اور فروخت کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو ویکسین نجی شعبے سے برآمد کرانے کے بجائے بطور ریاست خود شہریوں کو مفت فراہم کرنی چاہیے۔
وائس چیئر پرسن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے وزیرِ اعظم سے کہا ہے کہ اطلاعات کے مطابق کابینہ نے روس کی بنائی گئی ویکسین 'اسپوتنک فائیو' کی دو خوراکوں کی قیمت آٹھ ہزار 449 مقرر کی ہے۔ جب کہ چین کی ویکسین کے فی انجیکشن کی قیمت چار ہزار 225 روپے رکھی گئی ہے۔
وائس چیئر پرسن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق بھارت میں روسی ویکسین اسپوتنک فائیو کی قیمت 1500 پاکستانی روپے ہے۔
اُنہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ وبا کی ویکسین کی عالمی مارکیٹ سے 150 فی صد زیادہ قیمت پر فروخت ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ حکومت ویکسین کی خریداری کی شفافیت کو یقینی بنائے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم نجی اداروں کے ذریعے ویکسین کی خریداری کی پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔ نجی اداروں کے ذریعے ویکسین کی خریداری کی پالیسی کو منسوخ کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ صحت کی سہولتیں تمام شہریوں کو یکساں میسر ہوں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اِس سے طبقاتی نظام کو بنیاد فراہم کی جائے گی۔
وائس چیئر پرسن ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کہا کہ کرونا سے بچاؤ کی ویکسین شہریوں کو مفت لگنی چاہیے جو کہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ بطور پاکستانی شہری ریاست کے ساتھ یہ ایک عمرانی معاہدہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو صحت، تعلیم اور تحفظ کی سہولتیں فراہم کرے گی۔
اُن کے مطابق کرونا سے بچاؤ کی ویکسین لگانے میں نجی شعبہ کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے وزیرِ اعظم پاکستان کو لکھے گئے خط میں ایک تجزیہ بھی پیش کیا گیا ہے کہ دنیا کے کون کون سے ممالک میں کرونا سے بچاؤ کی ویکسین کتنی قیمت پر درآمد کی گئی ہے۔ اُس تجزیہ کے مطابق پاکستان میں اِس ویکسین کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین نے ویکسین کی ایک بڑی مقدار پاکستان کو عطیہ کی ہے۔ جو کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے افراد کو یہ ویکسین مفت لگائی گئی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ نوجوانوں کو کہا جائے کہ وہ ویکیسن کے لیے زیادہ رقم ادا کریں۔
زیادہ قیمت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امیر لوگ تو ویکسین لگوا لیں گے۔ جب کہ غریب طبقہ وبا میں مبتلا ہو سکتا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال ریاست کرونا وائرس کی ویکسن پیپرا رولز کے تحت منگوائے۔ ٹینڈر کے ذریعے جو سب سے سستی کوٹیشن ہو اُس سے ویکسین لی جائے۔
واضح رہے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے روس کی بنائی ہوئی 'اسپوتنک فائیو' ویکسین کی دو خوراکوں کی قیمت 8449 روپے طے کی ہے۔
چین پاکستان کو ویکیسن کی کچھ مقدار تحفے میں دے چکا ہے۔
یاد رہے وبائی امراض کے ماہر اور وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان ماضی میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ حکومت کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کو لگانے کے لیے نجی شعبے کی بھی حوصلہ افزائی کرے گی۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں پورے ملک میں ویکسین کی ترسیل اور لگائے کو یقینی بنانا ہے۔ ایسے میں چند فی صد افراد جو اِس ویکسین کو خریدنے کی استعطات رکھتے ہیں وہ ایک خوش آئندہ بات ہو گی۔
وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے بتایا تھا کہ ویکسین کی قیمت مقرر کرنے کے لیے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں ایک طے شدہ طریقہ کار موجود ہے جس کے تحت کرونا سمیت کسی بھی دوائی اور ویکسین کی قیمت مقرر کی جاتی ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کہتے ہیں کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی (ڈریپ) کا فیصلہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اُمید ہے کہ اس کی منظوری ہو جائے گی۔
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ مستقبل میں اِنہی قیمتوں پر مزید خریداری ہو سکے گی یا نہیں یہ دیکھنا ہو گا۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ ڈریپ کے مطابق ادویات کی قیمتوں کا تعین کرنے والی ان کی کمیٹی کا فیصلہ درست ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ قیمت تو متعین ہو چکی ہے۔ اگر ڈریپ نے درست فیصلہ کیا ہے تو اِس سے کم لاگت آ رہی ہو گی۔ اور اگر ڈریپ کا قیمتوں کا تعین غلط ہے تو ویکسین درآمد نہیں ہو سکے گی اور اسے قیمت پر نظرِ ثانی کرنا پڑے گی۔