پاکستان کی وفاقی حکومت نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کیس دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ متعلقہ اداروں کو تفتیش نئے سرے سے شروع کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ حدیبیہ کا مقدمہ شریف خاندان کی کرپشن کا سب سے اہم سرا ہے جو طریقہ حدیبیہ میں پیسے باہر بھیجنے کے لیے استعمال ہوا اسی کو بعد میں ہر کیس میں اپنایا گیا۔
دو دہائیوں سے جاری اس اہم کیس کے حوالے سے شریف خاندان اور ہر حکومت کے درمیان تنازع رہا ہے۔
حدیبیہ کیس کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر پروزیر رشید کہتے ہیں کہ حدیبیہ پیپرز ملز کے مقدمات، جنہیں اعلیٰ ترین عدالتیں بھی دفن کر چکی تھیں، اُنہیں زندہ کرنے کی کوشش اس بات کی گواہی ہے کہ ناکامیوں کے بوجھ کو انتقامی کارروائیوں کے پیچھے چھپانے کی روش جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو پھنسانے کے لیے اس کے بعد تو صرف ہابیل قابیل قتل مقدمہ ہی باقی بچتا ہے۔
ریفرنس میں ہے کیا؟
حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس مبینہ طور پر منی لانڈرنگ اور کرپشن کے پیسے کو چھپانے اور بیرون ملک لے جانے کے حوالے سے کیس ہے۔
حکومت کے مطابق حدیبیہ پیپر ملز کیس ایک ارب 24 کروڑ 20 لاکھ روپے کا معاملہ ہے۔ اس کیس میں الزام عائد کیا جاتا ہے کہ سابق وفاقی وزیرِ خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما اسحٰق ڈار نے شریف خاندان کی معاونت کے لیے بیرونی کرنسی کے جعلی بے نامی اکاؤنٹس کھلوائے۔
نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹے حسن نواز اور حسین نواز، بھائی سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز، انتقال کر جانے والے ان کے والد میاں شریف، والدہ بیگم شمیم اور بھائی عباس شریف کے نام بھی شامل ہیں۔
سال 1999 میں نواز شریف کی حکومت کے خاتمے اور فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اس وقت کی حکومت نے شریف خاندان کے اثاثوں کی جانچ پڑتال شروع کی۔
نو کروڑ کی کمپنی، 80 کروڑ کا خسارہ، 64 کروڑ کی سرمایہ کاری
حدیبیہ پیپر ملز پرائیویٹ لمیٹڈ کے ریکارڈ کی پڑتال کے دوران نیب اسلام آباد کو معلوم ہوا کہ 97-1996 اور 98-1997 کے دوران کمپنی کے کھاتوں میں بالترتیب تین کروڑ چار لاکھ 99 ہزار روپے اور 61 کروڑ 22 لاکھ 73 ہزار روپے بطور شیئر ڈپازٹ ظاہر کیے گئے ہیں۔
کمپنی جس کا اس سرمایہ کاری سے قبل حجم محض نو کروڑ 57 لاکھ اور مجموعی خسارہ 80 کروڑ 93 لاکھ 34 ہزار روپے تھا۔ اس میں اتنی بھاری رقم کی آمد نے تفتیش کاروں کو متوجہ کیا۔ لہذا نیب نے 1999 کے نیب آرڈیننس کے تحت معاملے کی پڑتال کا حکم دیا۔
کئی افراد شاملِ تفتیش
اس بارے میں مختلف افراد کو شامل تفتیش کیا گیا اور جب اس وقت کے وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار سے تفتیتش کی گئی۔ تو انہوں نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے شریف خاندان کے لیے ایک کروڑ 48 لاکھ ڈالر کے لگ بھگ رقم کی مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا اور وعدہ معاف گواہ بن گئے۔
جیل سے باہر آنے کے کچھ عرصے بعد اسحٰق ڈار اپنے اس بیان سے منحرف ہو گئے اور ان کا مؤقف تھا کہ یہ بیان انہوں نے دباؤ میں آ کر دیا تھا۔ لیکن یہ بیان ہی اس ریفرنس کی بنیاد بنا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت میں ریفرنس پر کارروائی کی کوشش
اس کیس پر تحقیقات جاری تھیں کہ اس دوران نواز شریف کے جنرل پرویز مشرف کی حکومت سے معاہدے کے تحت سعودی عرب چلے جانے پر کیس رک گیا۔
کئی برس تک کسی نے حدیبیہ پیپر ملز کیس کا نام بھی نہ لیا۔ تاہم سال 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت نے ایک بار پھر اس کیس کو کھولنے کا فیصلہ کیا اور نیب نے ریفرنس کو کھلوانے کے لیے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ سے رابطہ کیا ۔ راولپنڈی بینچ نے اکتوبر 2011 میں نیب کو اس ریفرینس پر مزید کارروائی سے روک دیا تھا۔
سال 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوتوں کا فقدان ہے۔
پانامہ لیکس کی آمد
ہائی کورٹ سے کیس ختم ہو جانے کے بعد نیب نے اس کیس کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا اور کئی برس سے تک یہ کیس منظر سے غائب رہا۔ بعد ازاں پانامہ کیس منظر عام پر آنے کے بعد سال 2017 میں نیب نے سپریم کورٹ سے اس کیس میں مزید تحقیقات کے لیے رجوع کیا۔
نیب کا کہنا تھا کہ پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کی روشنی میں نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ اس لیے ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی احتساب بیورو کو اس کیس کی تحقیقات کا حکم دیا جائے۔
سپریم کورٹ میں نیب کی درخواست مسترد
جس وقت یہ درخواست دائر کی گئی اس وقت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا وقت ختم ہو چکا تھا جس کی وجہ سے عدالت نے نیب کی دائر کردہ درخواست زائد المعیاد ہونے پر مسترد کر دی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم بینچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی شامل تھے۔
اس عدالتی فیصلے کے خلاف نیب نے نظرِ ثانی اپیل دائر کی۔ البتہ وہ بھی عدالت نے کچھ سماعتوں کے بعد اکتوبر 2018 میں مسترد کر دی تھی۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ نیب نے 1229 دن بعد اپیل دائر کی۔ زائد المیعاد ہونے پر اپیل خارج کی گئی۔
حکومت کا مؤقف
موجودہ حکومت ایک بار پھر اس کیس کو کھولنا چاہ رہی ہے۔
وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ اس کیس میں نیب نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مذکورہ واردات کے ذریعے شریف خاندان کے نامزد افراد نے منی لانڈرنگ اور اثاثے چھپانے جیسے گناہ ہی نہیں کیے۔ بلکہ یہ بہت سے ریاستی و حکومتی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرف دور میں جب یہ معاملہ احتساب عدالت کے روبرو آیا۔ کیس کے دوران ہی شریف خاندان نے مشرف حکومت کے ساتھ ڈیل کی اور سعودی عرب چلے گئے۔
ان کے مطابق سال 09-2008 میں معاملہ دوبارہ اٹھایا گیا۔ لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے مک مکا نے کیس کو پھر رکوا دیا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ دلچسپ بات یہ تھی کہ اتنی تفصیلی تفتیش کے بعد اس کیس کا ایک دن بھی عدالتی ٹرائل نہیں ہوا جس جج نے کیس بند کرنے کا فیصلہ کیا، بقول ان کے پانامہ اسکینڈل میں انکشاف ہوا کہ اس جج کے اپنے اثاثے بھی بیرون ملک تھے۔ بد قسمتی سے اس جج کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس مقدمے میں اب کچھ نئے حقائق بھی سامنے آئے ہیں جن پر نئی تفتیش کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ امید ہے عدلیہ ان ججوں کے خلاف بھی کارروائی کرے گی جنہوں نے بقول ان کے شریف خاندان کی معاونت کی۔ انصاف کا تقاضہ ہے کہ تمام ادارے اپنا کردار ادا کریں۔