افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کے انخلا کے عمل کے دوران وہاں رہنے والے ایسے باشندے خاص طور پر بے یقینی اور خوف کا اظہار کر رہے ہیں، جو امریکی اور اتحادی افواج کے لئے افغانستان میں بولی جانے والی مقامی زبانوں کے مترجم کے طور پر خدمات انجام دیتے تھے۔
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق، امریکی حکومت یا نیٹو کیلئے کام کرنے والے مترجم اور دیگر سویلین ملازمین کو افغانستان سے نقل مکانی کیلئے سن 2009ء میں تشکیل دئے گئے ایک پروگرام کے تحت سپیشل امیگرینٹ ویزا یعنی ایس آئی وی مل سکتا ہے۔ اس پروگرام کی تشکیل سازی عراق کیلئے بنائے گئے ایسے ہی ایک پروگرام پر کی گئی ہے۔
دونوں ایس آئی وی پروگراموں کے تحت درخواست دینے والوں کو سیکیورٹی چیک کیلئے طویل اور پیچیدہ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں اب عالمی وبا کی وجہ سے نافذ کئے گئے اقدامات کی وجہ سے مزید مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے گزشتہ ماہ نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وہ تمام مترجم اور دیگر افغان سویلین، جنہوں نے اکثر اپنی ذات کو لاحق خطرات کی پرواہ کئے بغیر جنگ میں اپنی خدمات انجام دیں، امریکہ ان کی مدد کرنے کیلئے پوری طرح سے تیار ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے بھی ایس آئی وی پروگراموں پر نظر ثانی کا آغاز کر دیا ہے، جن میں تاخیر، اور درخواست گزاروں کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد اسے چیلنج کرنے کی اہلیت کی جانچ کی جائے گی۔ اس میں فراڈ کے انسداد کو بھی شامل کیا جائے گا۔
اس نظر ثانی کے دوران، سابق مترجم، جو زیادہ تر اپنی شناخت کو مخفی رکھتے ہیں، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد کی صورتحال کے بارے میں سخت فکر مند ہیں، اور اس بارے میں کھلے عام بات بھی کر رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں مترجموں نے کابل میں ایک مظاہرہ بھی کیا تھا۔
اس مظاہرے میں شامل امریکی فوج کیلئے کام کرنے والے سابق مترجم، محمود ولی زادہ کا کہنا تھا کہ وہ یقیناً ہمیں ہلاک کر دیں گے۔
ترجمہ کرنے والوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم 'نو ون لیفٹ ہی ہائینڈ' کے شریک بانی میٹ زیلر کا کہنا تھا کہ سن 2016 سے لیکر اب تک افغانستان میں کم ازکم 300 مترجم ہلاک کئے جا چکے ہیں اور طالبان یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ وہ ایسے افراد کو نشانہ بناتے رہیں گے۔
افغانستان میں امریکی فوج میں بطور افسر خدمات دینے والے، زیلر کہتے ہیں کہ طالبان ان افراد کو اسلام دشمن سمجھتے ہیں۔ اس لئے ان کیلئے کوئی رحم نہیں ہو گا۔ زیلر اس وقت ایک امریکی ادارے ٹرومین نیشنل سیکیورٹی پراجیکٹ سے منسلک ہیں۔
ارکان کانگریس اور سابق فوجیوں نے بھی امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ویزا درخواستوں کی منظوری کے عمل میں تیزی لائیں، جس میں عمومی طور پر 3 سال سے زیادہ کا عرصہ لگتا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا 10 مئی کو کہنا تھا کہ ویزا درخواستوں کے عمل میں مدد کیلئے، کابل میں امریکی سفارتخانے کے عملے میں عارضی اضافہ کیا گیا ہے۔
وہ افغان شہری جنہیں اپنے خاندان والوں کے ساتھ امریکہ آنے کیلئے فوری ویزا مل سکتا ہے یعنی ایس آئی وی ویزا، ان کیلئے گزشتہ سال دسمبر میں کانگریس نے ایسے ویزوں کے اجرا میں 4000 کا اضافہ کیا تھا، جس سے ایس آئی وی ویزوں کی تعداد بڑھ کر 26,500 ہو گئی تھی۔ ان میں سے تقریباً نصف کے قریب ویزے جاری ہو چکے ہیں جبکہ 18,000 درخواستیں ابھی تک التوا کا شکار ہیں۔
ناقدین اور مہاجرین کے حقوق کیلئے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان مزید انتشار کا شکار ہوتا ہے تو نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔
افغانستان پر تحقیق کرنے والے نوح کوبرن، ایک پولیٹیکل اینتھروپولوجسٹ یعنی ماہر علم بشریات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ویزا دینے کے عمل پر بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے نظر ثانی کو سراہتے ہیں، لیکن انہیں پورے عمل پر نظر ثانی کرنا ہو گی، اور سب سے زیادہ ضرورت مند افغانوں کی مدد کرنے کا آغاز کرنا ہو گا۔
نوح کوبرن کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران، کسی بھی حیثیت سے امریکہ اور نیٹو کیلئے کام کرنے والے افغانوں کی تعداد اندازاً تین لاکھ تک ہو سکتی ہے۔
انٹرنیشنل ریفیوجی اسسٹنس پروجیکٹ کے پالیسی کاؤنسل، ایڈم بیٹس کا کہنا ہے کہ معاشرت کے بارے میں طالبان کی جو سوچ ہے، اس میں ایسے افغانوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، جو ان سے مختلف سوچ رکھتے ہیں، اورجن کی ایک بڑی تعداد ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، امریکہ کی سابق انتطامیہ کے دور میں تارکین وطن کے لئے امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی شرح ریکارڈ حد تک کم کر دی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ نے چند روز قبل اس تعداد کو بڑھا کر 62 ہزار 500 کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ امریکہ کی ایسی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے کہ وہ امریکی فوج کیلئے کام کرنے والے تمام افغان سویلین کو ایک ساتھ وہاں سے نکالے گا۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کابل میں ایس آئی وی ویزوں کے اجرا کے عمل پر کام کر رہی ہے اور اس وقت اس کا وہاں سے سب کو نکالنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔