بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دارالحکومت نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی قومی سیاسی دھارے میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں کو یقین دلایا ہے کہ ان کی حکومت علاقے کے مکمل ریاستی درجے کو بحال کرنے کے وعدے پر قائم ہے۔ لیکن اس کی ترجیحات میں سابقہ ریاست میں تعمیر و ترقی کے کاموں میں سرعت لانا اور جمہوریت کی مکمل بحالی شامل ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نے ان لیڈروں پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر میں مقامی اسمبلی اور بھارتی پارلیمان کے ایوانِ زیرین لوک سبھا کے حلقوں کی نئی حد بندی کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ کی ایک ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں قائم کیے گئے کمیشن سے تعاون کریں۔ تاکہ اس کی سفارشات کے مطابق یہ عمل جلد از جلد مکمل ہو اور علاقے میں جتنی جلدی ممکن ہوسکے اسمبلی انتخابات کرائے جائیں۔
بھارتی وزیرِ اعظم اور ان لیڈروں کے درمیان شورش زدہ علاقے کو درپیش مسائل اور امور پر غور کرنے کے لیے نئی دہلی میں جمعرات کو ایک طویل اجلاس منعقد ہوا۔
وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے اس اجلاس میں جو 14 ممتاز سیاست دان شریک ہوئے۔ ان میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، غلام نبی آزاد اور عمر عبد اللہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کانگریس اور مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور بعض علاقائی و سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی شامل تھے۔ جب کہ بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ، وزیرِاعظم کے دفتر میں تعینات وزیرِ مملکت ڈاکٹر جتیندر سنگھ جن کا تعلق جموں و کشمیر سے ہے۔ اس کے علاوہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے وزیرِ اعظم کی معاونت کی۔
'جموں و کشمیر میں ایک نئی صبح طلوع ہوئی ہے'
جتندر سنگھ نے اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ جموں و کشمیر میں چونکہ حفاظتی صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ لہذا وزیرِ اعظم چاہتے ہیں کہ وہاں اسمبلی انتخابات جلد سے جلد کرائے جائیں اور اس سے پہلےانتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانےکے لیے اس عمل میں سبھی سیاسی جماعتیں صدق دل سے شامل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس میں شرکت کرنے والی سبھی جماعتوں نے اس عمل میں شامل ہونے کی حامی بھرلی اور اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ جموں و کشمیر کو تشدد سے مکمل طور پر پاک کرکے تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے۔
انہوں نے وزیراعظم مودی کے حوالے سے کہا کہ جموں و کشمیر میں امید کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی ہے اور لوگوں میں پیدا ہونے والی خود اعتمادی کو مستحکم بناکر تعمیر و ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے دن رات محنت کرنا ہوگی۔ جتندر سنگھ کے بقول وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہیں جموں و کشمیر میں جمہوریت کی آبیاری اور جمہوری اداروں کو مزید مضبوط بنانے کے لیے سب کا تعاون درکار ہے۔
آئینی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ
اجلاس کے بعد عمر عبداللہ نے جو علاقائی جماعت نیشنل کانفرنس کے نائب صدر بھی ہیں کا کہنا تھا کہ ان کے والد اور پارٹی صدر ڈاکٹر فاروق عبد اللہ اور بعض دوسری جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیرِ اعظم پر یہ واضح کردیا کہ نہ صرف جموں وکشمیر کے عوام پر نئے حد بندی کمیشن کو مسلط کیا گیا ہے بلکہ یہ پورے بھارت میں واحد ریاست یا وفاق کا زیرِ انتظام علاقہ ہے جسے اس عمل کے لیے چنا گیا ہے۔ جس سے لوگوں میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اجلاس کے دوران فاروق عبد اللہ اور پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کے دوسرے رہنماؤں نے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
محبوبہ مفتی نے جو پی اے جی ڈی کی نائب صدر بھی ہیں، نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم کو بتایا کہ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سےاپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقوں کا درجہ دینے کا اقدام غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری تھا اور اس پر وہاں کے لوگ غصے میں ہونے کے علاوہ جذباتی طور پر ٹوٹ چکے ہیں۔
محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے وزیراعظم کو بتا دیا کہ یہ فیصلہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو قبول تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا اور وہ اس کے خلاف اپنی پر امن جدوجہد جاری رکھیں گے۔
کشمیری عوام مشکل میں
محبوبہ مفتی نے کہا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم سے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر کے عوام بڑی مشکل میں ہیں۔ نہ صرف پولیس کی پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ بلکہ اختلاف کی آواز کو دبانے کے لیے بدنامِ زمانہ انسدادِ غیر قانونی سرگرمیوں کے قانون کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے اجلاس کے دوران یہ بھی کہا کہ ریاستی عوام انہیں 5 اگست 2019 سے پہلے شہریت، ملازمتوں اور اراضی پر حاصل حقوق کی نہ صرف بحالی بلکہ ان کا مکمل آئینی اور قانونی تحفظ چاہتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور دفعہ 35 اے انہیں پاکستان نے نہیں، پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل نے دیے تھے۔
محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان سے امن مذاکرات بحال کرنے کی اہمیت اور ضرورت پر بھی زور دیا اور وزیرِ اعظم مودی سے یہ بھی کہا کہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی کنٹرول لائین کے آر پار بند پڑی تجارت کو فوری طور پر بحال کرنے کے لیے بھی پاکستان سے رابطہ استوار کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے سامنے جموں کشمیر کے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا معاملہ اٹھایا گیا اور یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ علاقے کے لوگوں بالخصوص سیاست، تجارت اور صنعت کے شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کو درپیش معاشی پریشانیوں سے باہر نکالنے کے لیے خصوصی مالی پیکیجز کا فوری طور پر اعلان کیا جائے۔
عمر عبد اللہ نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات نہ تو ان کی پارٹی، نہ پی اے جی ڈی اور نا ہی جموں و کشمیر کے عوام کے لیے قابلِ قبول ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کی بحالی کے لیے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کریں گے بلکہ اس کے لیے ایک قانونی لڑائی لڑیں گے۔
بھارتی حکومت کا صاف انکار
واضح رہے کہ نریندر مودی حکومت کے اس قدام کے خلاف نیشنل کانفرنس اور کئی دوسری پارٹیوں اور افراد نے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کی ہیں۔ لیکن ان پر سماعت رُکی ہوئی ہے۔
بھارتی حکومت اور حکمران بی جے پی بار ہا یہ اعلان کرچکی ہیں کہ آئینِ ہند کی دفعات 370 اور 35 اے کو جن کے تحت جموں و کشمیر کو ہند یونین میں یہ خصوصی پوزیشن حاصل تھی، بحال کیا جائے گا اور نہ سابقہ ریاست کو کسی طرح کی اندرونی خود مختاری دی جاسکتی ہے۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے سرکردہ لیڈر غلام نبی آزاد نے جو جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران سبھی سیاسی جماعتوں کا اس بات پر اتفاقِ رائے تھا کہ علاقے کا تمام اختیارات کے ساتھ مکمل ریاست کا درجہ مزید وقت ضائع کیے بغیر بحال کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی نے اجلاس میں جو پانچ نکتے پیش کیے، اُن میں کشمیری برہمن ہندوؤں یا پنڈتوں کی اپنے گھروں کو واپسی اور وادی کشمیر میں ان کی آباد کاری کا معاملہ بھی شامل تھا۔
حکومتی ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کو منعقد ہونے والا اجلاس کوئی سیاسی ڈرامہ نہیں تھا بلکہ جموں و کشمیر کو درپیش صورتِ حال پر حکومت اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان تبادلہ خیالات کی ایک سنجیدہ کوشش تھی اور اس دوران رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کیا۔
سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ اجلاس جسے بھارتی حکام نے کشمیر پر آل پارٹیز میٹنگ کا نام دیا ہے، بھارتی وزیرِاعظم کی طرف سے نئی دہلی کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق اپنی حکومت کے 5 اگست 2019 کو کیے گئے متنازع اقدام کے بعد علاقے میں پیدا ہونے والے سیاسی تعطل ختم کرنے کی پہلی اور بڑی کوشش تھی۔
بھارت نواز سیاسی گروہ کی آباد کاری
تاہم پاکستان میں حکومتی اور بعض سیاسی حلقوں کی یہ رائے ہے کہ چونکہ اس مصروفیت میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کُل جماعتی حریت کانفرنس کو شامل نہیں کیا گیا ہے اس لیے اس کا مقصد علاقے میں بھارت کے حامی سیاسی گروہ کی بحالی یا آبادکاری ہے۔
پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت 5 اگست 2019 کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کے بارے میں لیے گئے فیصلوں کو واپس لے اور ریاست کی آئینی حیثیت کو بحال کرے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے بھارت سے دو طرفہ مذاکرات کی بحالی کو اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے مشروط کردیا ہے۔
انہوں نے رواں ماہ کے شروع میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کا ملک بھارت کے ساتھ دو طرفہ مذاکرات بحال کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے لیے اس کی طرف سے جموں و کشمیر کو 5 اگست 2019 سے پہلے حاصل آئینی حیثیت کو بحال کرنا ہوگا۔
پی اے جی ڈی کے ترجمانِ اعلیٰ محمد یوسف تاریگامی نے جو کل جماعتی کانفرنس میں شریک تھے، وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وزیرِ اعظم مودی نے انہیں اور دوسرے شرکاء کو صبر اور اطمینان کے ساتھ ضرور سنا۔ لیکن ان کی طرف سے پیش کیے گئے مطالبات اور تجاوز پر کوئی مُثبت ردِ عمل ظاہر کیا اور نہ کسی قسم کی یقین دہانی کرائی۔
انہوں نے کہا کہ یہ ضرور ہے کہ ہماری باتوں کو بڑے صبر کے ساتھ سنا گیا اور کسی کو کچھ کہنے سے روکا نہیں گیا۔ لیکن کچھ کرنے کے بارے میں کوئی ٹھوس یقین دہانی نہیں کرائی۔
تجزیہ کا ر ڈاکٹر جاوید اقبال کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی نے یہ اجلاس کشمیر کے مسئلے کے داخلی سے زیادہ خارجی عوامل کو مطمئن کرنے کے لیے بلائی تھی۔ لیکن انہوں نے شرکائے اجلاس کے سامنے جو ایجنڈا رکھا ہے یا جو وہ خود کرنا چاہتے ہیں۔ اُس سے اُن خدشات کو دور کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ جن کا خارجی سطح پر کشمیر کے حوالے سے اظہار کیا جاتا رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم نے کشمیری جماعتوں اور لیڈروں کے سامنے نئی انتخابی حد بندی کے عمل کا حصہ بننے کی جو شرط رکھی ہے، وہ اُن کے سیاسی قد کو مزید کم کرنے بلکہ اُن کے پر کاٹنے کے مترادف ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ دہلی اور کشمیر کے درمیان بے اعتباری کی خلیج اتنی وسیع و عریض ہے کہ اسے پر کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ اگرچہ عبوری مدت میں راستہ ہموار کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی اور اس کی ظاہری شکل چناؤ کا راستہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ان کے بقول اس پر بھی نئی انتخابی حد بندیوں کی شرط کی وجہ سے ایک بڑا سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔
ڈاکٹر جاوید کے بقول وادی کشمیر کی سیاسی لیڈرشپ کے لیے اسے ہضم کرنا نہ صرف مشکل ہوگا بلکہ وہ اسے سیاسی میدان میں بیچنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر پر مستقبل میں خارجی عوامل اثر انداز ہوں گے۔ یہ ایک امر یقینی ہے اور صورت حال کے مجموعی تجزیے میں اسے مدنظر رکھنا ہوگا۔
اجلاس کے فورا بعد کئی کشمیریوں نے سوشل میڈیا کا رخ کر کے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
سرکردہ صحافی الطاف حسین نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ کل جماعتی کانفرنس سے کچھ حاصل نہیں ہوا ہے انہوں نے کہا کہ چند لیڈروں نے اپنے بیانات سے ثابت کردیا کہ بقول ان کے وہ (دہلی کے) مدد گار ہیں۔ باقیوں نے یہ ظاہر کردیا کہ وہ بے ریڑھ کے، قوتِ ارادی سے عاری اور غیر اہم ہیں۔
کُل جماعتی اجلاس کے ظاہری نتیجے پر عام لوگوں میں ملا جُلا ردِ عمل ہوا ہے۔ ایک شہری بلال احمد بٹ نے کہا ’’اُن کی طرف سے تاریخی غلطیوں کا ارتکاب اپنی جگہ، میں سمجھتا ہوں کہ اجلاس کے دوران صرف محبوبہ مفتی نے لوگوں کے مفاد میں بات کی۔ باقی اسمبلی انتخابات کے لئے اتاولے نظر آئے‘‘۔
بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے میٹینگ کے بعد اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جموں و کشمیر پر آج کا اجلاس ایک دوستانہ ماحول میں منعقد ہوا۔ ہر ایک نے جمہوریت اور آئین کے تعین پر اپنے عزم کا اظہار کیا۔
اس ٹوئٹ کے جواب میں نئی دہلی میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبد الباسط نے یہ طنزیہ جملہ لکھا کہ ہمیں کسی اور بات کی اُمید نہیں تھی، بقول ان کے ’’دہلی، دہلی کے ساتھ بات کر رہی تھی۔‘‘
خود بھارتی وزیرِ اعظم نے ایک ٹویٹ کرکے کہا کہ ان کی جمہوریت کی سب سے زیادہ طاقت میز کے گرد بیٹھ کر خیالات کا تبادلہ کرنے کی قابلیت ہے۔