پاکستان میں کرونا کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی سامنے آئی ہے اور این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں مثبت کیسز کی شرح صرف دو فیصد کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔ گزشتہ روز 44 ہزار 496 ٹیسٹس میں 914 افراد کے نتائج مثبت آئے ہیں۔
کرونا کی صورت حال بہتر ہونے کے باعث برطانیہ، یورپ، کینیڈا، چین اور ملائیشیا سے پروازیں بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پروازوں کی تعداد 20 فی صد بڑھائی جا رہی ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ملک میں مزید ویکسین بھی لائی جا رہی ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پانچ سے سات مختلف اقسام کی ویکسین دستیاب ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کیسز کی شرح میں کمی آئی ہے لیکن عام معمولات زندگی ابھی شروع نہیں کیے جا سکتے۔ چوتھی لہر کا خطرہ بدستور موجود ہے جس میں یہ خدشہ بھی ہے کہ عیدالضحیٰ کے موقع پر اس میں تیزی آ سکتی ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مزید اقسام کی ویکسینز بھی لائی جا رہی ہیں اور ویکسین لگانے کی رفتار میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ ایک مخصوص ویکسین کی ڈیمانڈ کر رہے ہیں اور اسلام آباد میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کا سبب بھی یہی تھا، تاہم صورت حال پر قابو پا لیا گیا۔
ملک میں کرونا کی شدت کم ہونے کے بعد پاکستان نے بیرونی ممالک سے آنے والی پروازوں کی تعداد 20 فیصد سے بڑھا کر 40 فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ سمیت دیگر متعلقہ اداروں کو جاری کئے گئے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ پری بورڈنگ اور آمد کے وقت موجودہ ٹیسٹنگ پروٹوکول برقرار رہیں گے۔ مزید 20 فیصد پروازوں کی اجازت ملنے سے اب 40 فیصد تک پروازیں چلائی جائیں گی۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ، یورپ، کینیڈا، چین اور ملائیشیا سے براہ راست فلائٹس بڑھانے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ یہ اضافہ 40 فی صد تک ہو گا۔
این سی او سی نے پاکستان آنے والوں کیلئے کورونا ٹیسٹنگ پروٹوکولز جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان آنے والے مسافروں کیلئے کرونا ٹیسٹ کرانا لازمی ہو گا۔ جب کہ ان مسافروں کے لیے قرنطینہ کی پابندی اٹھا لی گئی ہے جن کے کرونا ٹیسٹ منفی ہوں گے۔ مثبت ٹیسٹ والے مسافر اپنے گھروں پر ہی قرنطینہ کر سکیں گے۔
کرونا وائرس کے تازہ اعداد و شمار
این سی او سی کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق کرونا وائرس سے 20 مزید افراد موت کا شکار ہو گئے، جس کے بعد اموات کی تعداد بڑھ کر 22 ہزار 231 ہو گئی ہے۔
پاکستان میں کرونا کے تصدیق شدہ کیسز کی تعداد 9 لاکھ 55 ہزار 657 ہو گئی ہے۔ جب کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 914 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جس کے بعد پنجاب میں 3 لاکھ 45 ہزار 900، سندھ میں 3 لاکھ 36 ہزار 76، خیبر پختونخوا میں ایک لاکھ 37 ہزار 759، بلوچستان میں 27 ہزار 64، گلگت بلتستان میں 6 ہزار 19، اسلام آباد میں 82 ہزار 596، جب کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اب تک 20 ہزار 243 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ملک بھر میں اب تک ایک کروڑ 44 لاکھ 60 ہزار 890 افراد کے ٹیسٹ کئے گئے ہیں۔گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 44 ہزار 496 نئے ٹیسٹ کئے گئے۔ اب تک 9 لاکھ ایک ہزار 201 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ جب کہ ایک ہزار 961 مریضوں کی حالت تشویش ناک ہے۔
ہلاکتوں میں پنجاب میں 10 ہزار 729، سندھ میں 5 ہزار 418، خیبر پختونخوا میں 4 ہزار 308، اسلام آباد میں 776، بلوچستان میں 307، گلگت بلتستان میں 111 اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں 582 مریض کرونا کے ہاتھوں موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
کیا چوتھی لہر کا خطرہ موجود ہے؟
وفاقی وزیر اسد عمر نے حالیہ دنوں میں اپنی ایک ٹوئٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اگر احتیاطی تدابیر جاری نہ رکھی گئیں تو چوتھی لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بارے میں وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ ڈاکٹر جاوید اکرم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نئے کیسز کی شرح دو فیصد پر آنے کے باوجود وبا کی چوتھی لہر کا خطرہ بدستور موجود ہے، بالخصوص یہ خطرہ ڈیلٹا ویرینٹ کا ہے جس کے پھیلنے کی رفتار بہت تیز ہے اور وہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ فی الحال روزمرہ معمولات کو مکمل طور پر بحال کرنے سے اجتناب برتا جائے اور احتیاطی تدابیر جاری رکھی جائیں۔
پاکستان میڈیکل ایسویسی ایشن کے سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد کہتے ہیں کہ ملک بھر میں مجموعی طور پر اگرچہ کرونا کی شرح میں کمی ہوئی ہے لیکن مختلف شہروں میں اس کی شرح اب بھی مختلف ہے۔ کراچی میں اس وقت بھی کرونا مریضوں کی شرح 9 فیصد ہے۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں اس شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد میں یہ شرح کم ہوئی ہے، لیکن ہرڈ امیونٹی کے لیے، یعنی وہ سطح جس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں میں جرائیم کے خلاف مدافعت ہو ضروری ہے کہ 70 فیصد تک آبادی کی ویکسنیشن ہو چکی ہو، اور ابھی ہم صرف ایک کروڑ سے سوا کروڑ لوگوں کو ویکسین لگا سکے ہیں۔ لہذا ابھی معمولات زندگی کو پوری طرح بحال کرنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا، خاص طور پر اس لیے بھی کہ عید قربان قریب آ رہی ہے جس میں سماجی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔