افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی سے چین کی طویل عرصے کی امید بر آئی ہے کہ اس کے علاقائی حریف کا اثر و رسوخ عین اس کے ہمسائے میں کم ہو رہا ہے۔ مگر ساتھ ہی اس کےان اندیشوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے کہ ایسا نہ ہو امریکہ کے جانے سے وسط ایشیاء میں عدم استحکام کا خطرہ پیدا ہو جائے اور وہ بڑھتے ہوئے چین کے مسلم اکثریت والے صوبے سنکیانگ تک پہنچ جائے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے سے چین کے لئے اس ملک میں سیاسی اور اقتصادی مواقع ضرور پیدا ہوئے ہیں جن میں افغانستان کے معدنیات کے ذخائر کو مزید بڑھانا شامل ہے اور اس کے علاوہ چین کہہ چکا ہے کہ وہ اس ملک کی تعمیرِ نو میں مدد کے لئے بھی تیار ہے۔
مگر ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان تمام فوائد کے حصول کے لئے استحکام شرط ہے اور امریکہ کے انخلا کا فوری نتیجہ عدم استحکام سے کم نہیں ہے۔
لندن میں رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں اس خطے کے امور کے ماہر رافیلو پینٹوچی کہتے ہیں کہ چین، امریکہ کے ناقابلِ بھروسا ہونے اور اس کی ناکامی کا بیانیہ استعمال کرتے ہوئے ظاہر کر سکتا ہے کہ وہ ایک بہتر متبادل ہے مگر ان کے خیال میں حقیقت میں ایسا فی الوقت ہوتا نظر نہیں آتا۔
بہت سے دیگر ممالک کی طرح چین کو بھی طالبان کی قیادت والے افغانستان سے دہشت گردی کے ممکنہ خطرات پر تشویش ہے۔ بیجنگ بارہا طالبان سے کہہ چکا ہے کہ افغانستان کو ان عسکریت پسندوں کی سرزمین نہیں بننا چاہئیے جو سنکیانگ سے حملے کریں جیسا کہ اسامہ بن لادن نے اسے 9/11 کے حملوں کے لئے استعمال کیا تھا۔
ایک اور انتہائی قریبی خطرہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عسکریت پسندی پاکستان اور وسط ایشیا میں داخل ہو جائے جہاں چین نے اتحاد قائم کرنے کی خاطر بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
لی وی چائنا انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپوریری انٹرنیشنل ریلیشنز سے ریٹائرڈ بین الاقوامی سیکیورٹی کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی دہشت گرد فورسز سے قطع تعلق کر لیں گے مگر ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ وہ ایسا کیسے کریں گے کیونکہ ابھی وہ باضابطہ طور پر اقتدار میں نہیں آئے۔
امکان یہ بھی ہے کہ طالبان کے مذہب کی بنیاد پر قائم فلسفے اور چین میں کمیونسٹ پارٹی کے مذہب سے لاتعلق اقتدار کے درمیان کوئی قدر مشترک نہ ہو۔ تاہم یہ بات طالبان قیادت سے رابطے میں چینی لیڈروں کے مانع نہیں رہی۔
چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے گزشتہ ماہ طالبان کے سیاسی لیڈر ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں طالبان کے ایک وفد کی میزبانی کی تھی اور استحکام کے لئے چینی توقعات کے اظہار کے ساتھ تشدد اور دہشت گردی کے خطرات کے خاتمے پر زور دیا تھا۔
چینی میڈیا میں امریکہ کے افغانستان سے جلد بازی میں نکلنے پر کافی نکتہ چینی کی گئی۔ تاہم وزیرِ خارجہ وانگ نے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کو بتایا تھا کہ چین افغان مسئلے پر امریکہ کے ساتھ تعاون پر تیار ہے۔ مگر ساتھ ہی کہا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک جانب امریکہ چین کے جائز حقوق اور مفادات کو جان بوجھ کر دبائے اور نقصان پہنچائے اور دوسری جانب چین سے حمایت اور تعاون کی توقع کرے۔
صدر بائیڈن کہہ چکے ہیں کہ افغانستان سے انخلاء، امریکہ کو چین سمیت بڑے ممکنہ خطرات سے نمٹنے میں مدد دے گا۔
اس ہفتے صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ "فوجی حکمت عملی میں ہمارے مسابقت کار، چین اور روس کو یہ بھائے گا کہ امریکہ افغانستان میں استحکام کے لئے غیر معینہ مدت تک اربوں ڈالر، وسائل اور توجہ صرف کرتا رہے۔
چائنیز اکیڈیمی آف سوشل سائنسز میں مشرقِ وسطیٰ کے امور کے محقق ین گانگ کہتے ہیں کہ ایک مستحکم افغانستان دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔
وہ کہتے ہیں اگر افغانستان میں استحکام آتا ہے تو امریکہ کی ساکھ بہتر ہو گی اور چین کو تعمیرِ نو میں شرکت کی دعوت ملے گی۔
چین اس سے پہلے افغانستان میں کچھ صنعتی منصوبوں پر کام کر چکا ہے مگر ان منصوبوں کی تکمیل آج بھی اتنی ہی دور ہے جتنی امریکہ کی بیس برس کی موجودگی میں تھی۔
چین کی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم نے جس کی قیادت چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن کر رہی تھی، مس اینک، افغانستان میں کاپر کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر پر کام کے علاوہ پاور پلانٹ، ریلوے اور دیگر زیریں ڈھانچے کی تعمیر پر تین ارب ڈالر کا منصوبہ پیش کیا تھا مگر برسوں بعد بھی یہ شروع نہیں کیا جا سکا اور اس کی زیادہ تر وجہ صوبے لوگر میں باغیوں کی کارروائیاں تھیں۔
چین نے پاکستان میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ اور اسے توقع ہے کہ اس سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کو توسیع حاصل ہو گی اور بیرونِ ملک چینی تجارتی راستے بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ مگر افغانستان اس سلسلے میں کوئی کڑی بننے سے بہت دور ہے۔
ملبورن، آسٹریلیا میں سیاسی تجزیہ کار ہنری سٹوری کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے دوبارہ سر اٹھانے سے پاکستان اور وسط ایشیا میں چین کے وسیع اقتصادی مفادات پر زد پڑ سکتی ہے۔
ہنری کا مزید کہنا ہے کہ چین امریکہ کی غلطیاں دوہرانا نہیں چاہتا اور نہ ہی تائیوان جیسے مسائل سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے اس لئے افغانستان میں فوجی موجودگی سے گریزاں ہے۔
چینی سکالر حکومت کا مؤقف دوہراتے ہوئے کہتے ہیں کہ صورتِ حال کچھ بھی ہو، چین افغانستان کے داخلی معاملات میں خود کو ملوث نہیں کرے گا۔ اور چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان چاؤ لیجن نے اس ہفتے ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ چین افغانستان کو مدد اپنے وسائل میں رہتے ہوئے فراہم کرے گا۔
اگرچہ چینی میڈیا میں افغانستان سے امریکہ کے انخلاء کو واشنگٹن کی شکست اور بیجنگ کی فتح کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ تاہم، انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز میں چینی امور کی ماہر میا نووینز کہتی ہیں کہ اس سے، ''گمراہ کن احساسِ اعتماد'' کی عکاسی ہوتی ہے؛ اور چین بھی فی الوقت افغانستان کے لئے "دیکھئے اور انتظار کیجئے" کی پالیسی پر گامزن رہے گا۔