پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے بھی انداز نرالے ہوتے ہیں جو کھلاڑی سارا سال ٹیم میں جگہ نہیں بنا پاتے، انہیں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی ٹیم میں جگہ مل جاتی ہے اور جو 12 ماہ ٹیم کے ساتھ رہتے ہیں انہیں باہر کر دیا جاتا ہے۔
ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے قومی ٹیم کے اعلان پر جہاں بعض کرکٹ ماہرین تنقید کر رہے ہیں وہیں عوامی حلقے بھی حیران ہیں۔
بعض کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ سال کے آغاز میں جن کھلاڑیوں کو اس وقت کے نئے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے ٹیم سے باہر نکالا تھا، سال کے اختتام سے قبل ہی انہیں بغیر کسی پرفارمنس کے وہ اسکواڈ میں واپس لے آئے ہیں۔
ادھر ہیڈ کوچ مصباح الحق اور بالنگ کوچ وقار یونس بھی اپنے عہدوں سے دست بردار ہو گئے ہیں اور اس اہم موقع پر کوچنگ کی ذمے داریاں عارضی طور پر ثقلین مشتاق اور عبدالرزاق کے سپرد کی گئی ہیں۔
ٹیم سلیکشن اور کوچنگ اسٹاف کا اچانک عہدوں کو چھوڑ دینا، کیا یہ کہیں نئے چیئرمین کے استقبال کی تیاری تو نہیں؟ کہیں رمیز راجہ کے خیالات جان کر کوچز نے عہدوں سے علیحدگی اور چیف سلیکٹر نے سلیکشن کرنے میں عافیت سمجھی، کیوں کہ 2021 کے نویں مہینے میں اب زیادہ تر وہی کھلاڑی ٹیم میں شامل ہیں جن سے سال کے آغاز میں چھٹکارا پایا گیا تھا۔
کس کھلاڑی کو ٹیم میں اور کس کو ٹیم میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟
اگلے ماہ ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے ٹیم سلیکشن کا کیا معیار رکھا گیا یہ تو کوئی نہیں جانتا، لیکن اتنا سب ضرور مانتے ہیں کہ جو ٹیم منتخب ہوئی ہے اس سے زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں۔
سابق کپتان اور تجربہ کار کھلاڑی سرفراز احمد کو ٹیم سے باہر کر دیا گیا ہے۔ منجھے ہوئے مڈل آرڈر بلے باز شعیب ملک اور پاکستان کی جانب سے وائٹ بال کرکٹ میں سب سے بڑی انفرادی اننگز کھیلنے والے فخر زمان کو آئی سی سی ایونٹ کے قابل ہی نہیں سمجھا گیا۔
بعض کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) اور کشمیر پریمیئر لیگ میں سینچریاں بنانے والے شرجیل خان کی جگہ انٹرنیشنل کرکٹ میں بار بار فیل ہونے والے آصف علی کو ٹیم میں شامل کر لیا گیا ہے جب کہ ان فٹ اعظم خان کو بطور متبادل وکٹ کیپر سلیکٹ کر کے ملک بھر کے وکٹ کیپرز کی حق تلفی کی گئی۔
شائقین یہ جاننے کے لیے بے تاب ہیں کہ کن اننگز کے بل بوتے پر آصف علی اور خوشدل شاہ جیسے کرکٹرز کو ٹیم میں واپس بلایا گیا، کیوں نائب کپتان شاداب خان کو ڈراپ نہیں کیا جا رہا اور کیوں میچ ونرز عثمان قادر، شاہنواز دھانی اور فخر زمان کو متبادل کھلاڑیوں کے طور پر ٹیم کے ساتھ لے جایا جا رہا ہے جب کہ ان کو اسکواڈ میں ہونا چاہیے تھا۔
ٹیم میں شامل ہونے والے کھلاڑیوں سے بہتر ریکارڈ ٹیم سے باہر ہونے والوں کا ہے!
رواں ماہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ممکنہ چیئرمین رمیز راجہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔ لیکن ان کی آمد سے قبل ہی ایک ایسی ٹیم کا انتخاب ہوا جس میں منتخب ہونے والے کھلاڑیوں سے بہتر ریکارڈ ٹیم سے باہر ہونے والوں کا ہے۔
ٹیم میں منتخب ہونے والے کھلاڑیوں کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ آصف علی کا ریکارڈ مایوس کن ہے، 29 سالہ کھلاڑی نے 29 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے لیکن صرف 344 رنز ہی بنا سکے۔
آصف علی کا اسٹرائیک ریٹ ضرور 120 کے لگ بھگ ہے۔ لیکن ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 16.38 کی اوسط پر انہیں کہیں اور جگہ ملنا مشکل ہے۔
چھبیس سالہ خوشدل شاہ نے نو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی ان کا 109 کا اسٹرائیک ریٹ تو بہتر ہے لیکن 21.66 کی اوسط کی بنیاد پر انہیں دوبارہ منتخب کرنا کرکٹ ماہرین کے مطابق ان کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی ہے جو رنز بھی بناتے ہیں اور تیز اسکور کرتے ہیں۔
تین میچوں میں چھ رنز بنا کر اعظم خان نے چیف سلیکٹر کو کیسے بتایا کہ ان میں ٹیلنٹ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اور کیوں انہیں حارث رؤف کا نو رنز فی اوور کا اکانومی ریٹ نظر نہیں آیا، اس کا جواب تو چیف سلیکٹر ہی دے سکتے ہیں جن کے بقول یہ ٹیم ان کا آخری اسائنمنٹ تھا۔
یوں تو شاداب خان اور عماد وسیم خود کو آل راؤنڈرز کہتے ہیں لیکن گزشتہ کئی میچز میں ان کی کارکردگی بھی واجبی سی رہی۔
53 ٹی ٹوئنٹی کھیلنے والے شاداب نے اب تک 58 وکٹیں لی ہیں اور بالنگ اوسط 23 ہے جو پہلے اس سے بھی بہتر ہوا کرتا تھا۔ لیکن بیٹنگ کرتے ہوئے ان کے 226 رنز 15 رنز فی اننگز کی اوسط پر بنے ہیں۔
عماد وسیم کی بیٹنگ اوسط اس سے بھی کم ہے اور 52 میچز میں انہوں نے 13 رنز فی اننگز کی اوسط سے صرف 328 رنز بنائے ہیں۔ بالنگ میں انہوں نے 23 کی اوسط سے 51 وکٹیں حاصل کی ہوئی ہیں لیکن گزشتہ کئی میچز میں ان کی کارکردگی کا گراف اوپر جانے کے بجائے نیچے کی جانب گیا۔
ادھر 21 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں 133 کے اسٹرائیک ریٹ سے 406 رنز بنانے والے شرجیل خان اسکواڈ کا حصہ ہی نہیں جب کہ 53 ٹی ٹوئنٹی میچز میں 136 کے اسٹرائیک ریٹ سے 1021 رنز بنانے والے فخر زمان 15 رکنی اسکواڈ سے باہر ہیں۔
متبادل کھلاڑی کے طور پر اسکواڈ میں شامل عثمان قادر کا ریکارڈ ٹیم کے نائب کپتان سے بہتر ہے، اب تک 16 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلنے والے عثمان نے 20 کھلاڑیوں کو 16.03 کی اوسط سے آؤٹ کیا ہے جب کہ ان کا اکانومی ریٹ بھی دوسروں کے مقابلے میں کم ہے۔
رہی بات سینئر کھلاڑیوں کی تو شعیب ملک نے 116 ٹی ٹوئنٹی میچز میں 31 کی اوسط اور 124 کے اسٹرائیک ریٹ سے 2335 رنز اسکور کیے جس بنا پر انہیں کسی بھی ٹیم میں جگہ مل سکتی ہے، سوائے پاکستان کے۔
سابق کپتان اور وکٹ کیپر سرفراز احمد کا ریکارڈ بھی کئی منتخب ہونے والے کھلاڑیوں سے بہتر ہے۔ انہوں نے 28 کی اوسط اور 127 کے اسٹرائیک ریٹ سے 812 رنز بنائے ہیں اور ان کی غیر موجودگی میں کپتان بابر اعظم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
'پرفارمنس کے بغیر کچھ کھلاڑیوں کو آئی سی سی ایونٹ کے لیے منتخب کر لیا گیا'
سابق ٹیسٹ کرکٹر یاسر عرفات کا کہنا ہے کہ شعیب ملک اگر پی سی بی کے پلان میں ہوتے تو اسے ایک دو سیریز قبل منتخب کر کے موقع ضرور دیا جاتا. ان کے بقول ایونٹ کے دوران سرفراز احمد کی کمی ٹیم محسوس کرے گی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شعیب ملک جیسے تجربہ کار کھلاڑی کی ٹیم میں موجودگی سے بیٹنگ لائن مضبوط ہوتی۔
اُن کے بقول "آئی سی سی ایونٹس میں ہمیشہ ہر ٹیم کی کوشش ہوتی ہے کہ کم از کم ایک تجربہ کار کھلاڑی ٹیم کا حصہ ہو، شعیب ملک کا شمار پاکستان کے تجربہ کار کھلاڑیوں میں ہوتا ہے، لیکن وہ بورڈ کے پلان میں شامل ہی نہیں تھے۔ اگر بورڈ کے پلان میں وہ ہوتے تو انہیں رواں برس جنوبی افریقہ یا ویسٹ انڈیز کے خلاف کھلایا جاتا۔"
سرفراز احمد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پہلے دو برس میں دو میچز کھلا کر ان کے ساتھ زیادتی کی گئی، اب ٹیم سے باہر کر کے رہی سہی کسر پوری کر دی گئی۔
یاسر عرفات کہتے ہیں کہ "سرفراز احمد کا ٹیم کے ساتھ ہونا بہت ضروری تھا کیوں کہ ایک تو وہ تجربہ کار کھلاڑی ہیں، دوسرا اگر خدانخواستہ رضوان کو کوئی انجری ہوجاتی ہے تو متبادل کیپر کے طور پر انہیں کھلایا جا سکتا تھا۔ اعظم خان ابھی نئے ہیں، انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کا کوئی تجربہ نہیں، ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں سرفراز ان سے بہتر چوائس ہوتے۔"
بقول یاسر عرفات، آصف علی، خوش دل شاہ اور اعظم خان کی پرفارمنس کوئی اتنی خاص نہیں تھی کہ انہیں آئی سی سی ایونٹ کے لیے منتخب کیا جاتا۔
اُن کا کہنا ہے کہ "ان تینوں کھلاڑیوں کو جب بھی انٹرنیشنل میچز میں موقع ملا، انہوں نے مایوس کیا، لیکن اس میں انہیں کھلانے والوں کی بھی غلطی ہے جنہوں نے انہیں کبھی حوصلہ نہیں دیا جس کی وجہ سے وہ پاکستان سپر لیگ اور ڈومیسٹک کرکٹ والی کارکردگی انٹرنیشنل لیول پر نہیں دکھا سکے۔"
یاسر عرفات سمجھتے ہیں کہ جو کھلاڑی سلیکٹ ہوئے ان میں سے کسی نہ کسی کے ساتھ کوئی ایشو رہا ہے، شاداب خان اور عماد وسیم کے ساتھ فٹنس مسائل ہیں جب کہ محمد نواز کی فارم بھی کچھ اتنی اچھی نہیں ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس جلد بازی کی سلیکشن کا نقصان پاکستان کرکٹ کو ہو گا، دو سال میں نہ تو کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو نکھارا گیا اور نہ ہی کوئی بہتر ٹیم کمبی نیشن بن سکا جس کی وجہ سے یہ وقت دیکھنا پڑا کہ ایسی ٹیم منتخب ہوئی جس سے شائقین کو امیدیں ہی نہیں۔
اُن کے بقول "گزشتہ دو برسوں میں مصباح الحق اور وقار یونس نے نہ ہی کھلاڑیوں کی کوئی رہنمائی کی، نہ ہی ان کی زیرِ نگرانی کھلاڑیوں میں کوئی بہتری آئی، اسی ڈر کی وجہ سے دونوں کوچز نے عہدوں سے الگ ہونے کو بہتر جانا۔ کیوں کہ جو ٹیم انہوں نے تیار کی، اگر اس کے ساتھ وہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں جاتے تو اچھے نتائج کا آنا مشکل ہے۔ اس ایونٹ کے بعد انہیں ڈر تھا کہ کہیں ناقص کارکردگی پر انہیں عہدوں سے برطرف نہ کر دیا جائے اسی لیے انہوں نے خود ہی عہدہ چھوڑنے میں عافیت جانی۔"
ٹیسٹ ، ون ڈے کرکٹ کی طرح اب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ بھی ٹیکنیکل ہو گئی ہے، محسن خان
سابق ٹیسٹ کرکٹر، چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ محسن حسن خان کی زیر نگرانی پاکستان نے اسی متحدہ عرب امارات میں ورلڈ نمبر ون انگلینڈ کو 2012 میں ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی، جہاں اگلے ماہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کا میلہ سجنے والا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ کی طرح اب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ بھی ٹیکنیکل ہو گئی ہے۔ دیگر کھیلوں کی طرح اس میں بھی فزیکل فٹنس سے زیادہ مینٹل فٹنس ضروری ہے۔
اُن کے بقول "انٹرنیشنل کرکٹ میں جتنے بھی بڑے بلے باز آئے، ان میں سے کوئی پہلوان نہیں تھا، لیکن سب کے سب دماغی طور پر مضبوط تھے۔ پاکستان میں کھلاڑیوں کے پاس باؤنڈری مارنے کا ہنر تو ہے، لیکن صبر کا فقدان انہیں لمبی اننگز کھیلنے سے روکتا ہے۔"
بقول محسن خان، جب وہ کوچ تھے تو انہوں نے اس وقت بھی عمر اکمل کو یہی سمجھایا تھا کہ اگر لمبی اننگز کھیلنا ہے تو ڈرنا نہیں بلکہ سنبھل کر کھیلنا چاہیے۔
محسن خان کہتے ہیں کہ "کسی بھی فارمیٹ میں اننگز بنتی نہیں بنانا پڑتی ہے، ایک بالر کبھی بھی سارے اوور اچھے نہیں کرتا، اچھے بلے باز کی نشانی یہی ہے کہ وہ خراب گیندوں پر رنز بناتا ہے اور اچھی گیندوں پر آؤٹ نہیں ہوتا۔"
ماضی کے بڑے بلے بازوں کا حوالہ دیتے ہوئے محسن خان کا کہنا تھا کہ ویو رچرڈز، ظہیر عباس سمیت کوئی بھی کھلاڑی، ہر بال پر رنز نہیں بناتا تھا، لیکن آج کل کے کھلاڑی زبردستی شاٹ بنانے کی کوشش میں آؤٹ ہوتے ہیں۔
اُن کے بقول "مجھے آج بھی لیجنڈری انگلش کرکٹر جم لیکر کی بات یاد ہے جو انہوں نے 1982 کے انگلینڈ ٹور پر مجھ سے کہی تھی، میں اس وقت اچھے چالیس پچاس رنز بناکر آؤٹ ہو رہا تھا، لیکن انہوں نے مجھے صرف ایک جملے میں سمجھایا کہ تم ان چھوٹی اننگز سے زیادہ بڑے کھلاڑی ہو۔ انہوں نے مجھ پر واضح کر دیا کہ وکٹ ہر جتنی دیر ٹھیرو گے، رنز خود بخود بنیں گے۔ ان کھلاڑیوں کو میرا بھی یہی مشورہ ہے کہ جلد بازی کے بجائے وکٹ پر ٹھیرنے کی کوشش کریں، اس سے ان کے کریئر اور ٹیم دونوں کو فائدہ ہو گا۔''