امریکہ نے کہا ہے کہ وہ طالبان پر عائد موجودہ پابندیوں کو نہیں ہٹائے گا۔ لیکن مشکل کا شکار افغان شہریوں کے لیے انسانی بنیادوں پر امداد یقینی بنائے گا۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے منگل کے روز سینیٹ میں قانون سازوں کی جانب سے کیے گئے سخت سوالوں کے جواب دیے، جن کا تعلق گزشتہ ماہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے تھا۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کی مدد سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کی امداد جاری رکھی جائے گی۔
اس سے ایک ہی روز قبل امریکہ نے کہا تھا کہ وہ انسانی ہمدردی کے نئے اعانتی پیکیج کے ضمن میں تقریباً چھ کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کرے گا۔
بلنکن نے کہا کہ ''اضافی رقوم کی فراہمی سے صحت اور غذا سے متعلق شدید نوعیت کی ضروریات پوری کی جاسکیں گی، جب کہ خواتین، بچوں اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مدد ملے گی، جس میں بچیاں بھی شامل ہیں جنھیں دوبارہ اسکول جانے میں مدد دی جائے گی''۔
امریکی اعانت کی مد میں کی جانے والی یہ کاوش طالبان کے ذریعے نہیں بلکہ براہ راست افغان عوام تک پہنچائی جائے گی۔ اس امداد کی فراہمی کے بعد اس مالی سال کے دوران امریکہ کی جانب سے افغان عوام کو تقریباً 33 کروڑ ڈالر کی مالیت کی مدد فراہم ہو جائے گی۔
اقوام متحدہ نے سال کی باقی مدت کے لیے ایک کروڑ 10 لاکھ افراد کو غذا، صحت کی دیکھ بھال، پناہ اور دیگر ضروریات کی فراہمی کے لیے 60 کروڑ 60 لاکھ ڈالر مالیت کے عطیات کی فراہمی کی اپیل کی ہے۔
ایسے میں جب کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کا منگل سے آغاز ہو رہا ہے، یہ بات ابھی واضح نہیں کہ آیا اس سال کے بین الاقوامی اجتماع میں افغانستان کی نمائندگی طالبان قیادت کرے گی یا نہیں؟
سینیٹ کمیٹی کے سربراہ،بوب مینڈیز نے کہا کہ یہ خام خیالی ہے کہ طالبان اپنے وعدے پورے کریں گے اور امریکہ کو مختلف قسم کے نتائج کی توقع ہے،
انھوں نے دیگر ملکوں سے کہا کہ وہ دو طرفہ بنیادوں پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کریں۔
سینیٹر مینڈیز کے الفاظ میں، ''اب ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ طالبان سیاسی راستہ اپنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ القاعدہ سے مراسم ترک کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور وہ نہیں چاہتے کہ خواتین کو اپنے حقوق دیے جائیں، اور وہ انھیں یہ حقوق نہیں دیں گے، جس سے وہ معاشرے کی ترقی میں مکمل طور پر شریک ہو سکتی ہیں''۔
ریاست اڈاھو سے تعلق رکھنے والے، سینیٹر جیمز رچ نے، جو سینیٹ کے ایوان میں ری پبلکن پارٹی کے چوٹی کے راہنما ہیں، کہا ہے کہ حالیہ کارروائی کے دوران جس ملک نے بھی طالبان کو حمایت فراہم کی، اس کے امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات کا درجہ گھٹا دینا چاہیے۔
پیر کے روز ایوانِ نمائندگان کی امور خارجہ کمیٹی کے روبرو سماعت کے دوران، بلنکن نے کہا تھا کہ انھوں نے ذاتی طور پر طالبان قیادت کے ارکان سے بات نہیں کی۔
اس ضمن میں، انھوں نے منگل کے روز مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری سے اپنے آپ کو تسلیم کرانے کے معاملے کا انحصار طالبان کے طرز عمل پر ہے۔