وہائٹ ہاوس نے پاکستان کی جانب سے نو دسمبر سے واشنگٹن میں شروع ہونے والی دو روزہ ورچوئل جمہوریت کانفرنس میں شرکت سے معذرت پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ہم کانفرنس میں شرکت کرنے اور نہ شرکت کرنے والے ملکوں سے جمہوریت کو مضبوط کرنے، انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دینے اور بد عنوانی کے خاتمے پر بات چیت جاری رکھیں گے، چاہے وہ کانفرنس کے فریم ورک کے اندر ہو یا باہر۔
وائس آف امریکہ کی نمائندہ پیٹسی ودا کسوارا کے مطابق پاکستان کے کانفرنس میں شرکت سے معذرت پر ردعمل دیتے ہوئے وائٹ ہاوس کے ایک سینئیر عہدیدار نے یہ بیان دیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان نے بدھ کی شام یہ کہتے ہوئے امریکہ کی جانب سے جمہوریت کے لیے منعقد کیے جانے والے سربراہ اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لی ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ متعدد معاملات پر مل کر کام کر رہا ہے اور اس موضوع پر بھی مستقبل میں مناسب وقت پر مل بیٹھے گا۔
ادھر پاکستانی محکمہ خارجہ کے ایک سینئیر عہدیدار نے اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندہ ایاز گل کو بتایا ہے کہ پاکستان 'ون چائنا پالیسی' کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور تائیوان کی جمہوریت کانفرنس میں شرکت پاکستان کے دیرینہ موقف سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
امریکہ جمعرات سے واشنگٹن میں ڈیمو کریسی پر دو روزہ ورچوئل سربراہ اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، جس میں پاکستان سمیت 100 سے زیادہ ممالک کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ''ہم امریکہ کی جانب سے اس سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت پر شکر گزار ہیں''۔
دفتر خارجہ کے بیان کے متن کے مطابق: ’’پاکستان ایک بڑی اور فعال جمہوریت ہے جہاں عدلیہ آزاد ہے، سول سوسائٹی متحرک ہے اور میڈیا آزاد ہے۔ ہم جمہوریت کی مزید مضبوطی، بدعنوانی سے جنگ، تمام شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے پر عزم ہیں۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں ان مقاصد کے حصول کے لیے وسیع تر اصلاحات متعارف کرائی ہیں اور ان إصلاحات کے مثبت نتائچ سامنے آئے ہیں‘‘۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ شراکت داری کو بہت اہمیت دیتا ہے اور دو طرفہ تعلقات کے ساتھ ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی معاملات پر تعاون میں بھی فروغ کا خواہش مند ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اس تحریری بیان میں کہا ہے کہ ''ہم امریکہ کے ساتھ وسیع تر معاملات پر رابطے میں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم اس موضوع (جمہوریت) پر بھی مستقبل میں کسی مناسب موقعہ پر مل بیٹھیں گے''۔
بیان میں کہا گیا ہے، ''پاکستان امریکہ کے ساتھ مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے بات چیت کے عمل کو مضبوط بنانے، پائیدار تعلقات اور بین الاقوامی تعاون کے لیے کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا''۔
پاکستان کی عدم شرکت کے فیصلے کو تجزیہ کار کیسے دیکھ رہے ہیں؟
اسلام آباد سے ہمارے نمائندے عاصم علی رانا سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے پاکستان کی جانب سے ڈیموکریسی کانفرنس میں شرکت سے انکار کو درست فیصلہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فیصلہ کرنے کا حق ایک خودمختار ملک کو ہے کہ وہ اپنے ملک کے لیے دیکھے کہ کیا کام ان کے لیے بہتر ہے، ماضی میں حکمران سپرپاورز کی آنکھ کے اشارے کے منتظر ہوتے تھے اور جو وہ کہتے تھے اسی طرح ہو جایا کرتا تھا ، لیکن یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان کے فیصلے پاکستان کے مفاد کے مطابق ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں صدر جوبائیڈن نے کہا کہ پاکستان ایک اہم ملک ہے اور پاکستان کے ساتھ عارضی نہیں بلکہ پائیدار تعلقات ہونے چاہیے، اب جوبائیڈن ماضی میں ہونے والے کام کر رہے ہیں اور پاکستان کو محض اس کانفرنس میں بلایا جارہا ہے۔ ان کے بقول اس وقت ایک دوڑ چل رہی ہے کہ سرد جنگ کے زمانے کی طرح امریکہ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے دنیا کے ممالک کو اکٹھا کررہا ہے، اس میں نہ جانے سے پاکستان کی ساکھ کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔ میری نظر میں یہ ایک بہترین فیصلہ ہے۔
تجزیہ کار نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اس میں شرکت کرنے کی بہت زیادہ ضرورت تھی تاکہ امریکہ کو پیغام جاتا کہ پاکستان امریکہ سے نارمل تعلقات چاہتا ہے اور کسی قسم کی کشیدگی امریکہ کے ساتھ نہیں چاہتا۔
انہوں نے کہا کہ ایک عرصہ سے سوال سامنے آرہا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سے پاکستانی وزیر اعظم کو فون نہیں کیا جا رہا، اس میں کچھ انا کا مسئلہ نظر آرہا ہے۔ممکن ہے کہ پاکستان چاہتا ہو کہ امریکہ کو پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔