رسائی کے لنکس

یمن کے حوثی متحدہ عرب امارات کو نشانہ کیوں بنارہے ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

حوثی باغیوں کے متحدہ عرب امارات پر حالیہ حملوں سے یمن میں جاری جنگ خطے کے دیگر ممالک تک پھیلنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔

امارات کی سرزمین پر پیر کو حوثی باغیوں کا حملہ ایک ہفتے کے دوران دوسرا حملہ تھا۔ اس سے قبل 17 جنوری کو باغیوں نے ابوظہبی کے آئل ڈپو کو نشانہ بنایا تھا جس میں ایک پاکستانی شہری سمیت تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

ماضی میں حوثی باغی سعودی عرب کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔ البتہ یہ پہلا موقع ہے کہ باغیوں نے عرب امارات کو نشانہ بنایا ہے۔ اس سے قبل حوثیوں کی جانب سے یو اے ای پر حملے کے دعوے سامنے آتے رہے تھے جنھیں اماراتی حکام نے ہمیشہ مسترد کیا۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق امارات کو نشانہ بنا کر حوثی یمن میں جاری سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار کا دائرہ بڑھانا چاہتے ہیں۔

حوثی باغیوں نے یمن میں 2015 میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کا تختہ اُلٹ کر بغاوت کر دی تھی۔باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے جب کہ انہوں جس حکومت کا تختہ الٹا تھا وہ سعودی عرب کی حمایت یافتہ تھی۔

جب یمن میں حکومت کا تختہ الٹ گیا تو سعودی عرب نے حوثی باغیوں کے خلاف کارروائی کے لیے ایک عسکری اتحاد تشکیل دیا تھا جس میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے۔

امارات پر حملے مارب میں لڑائی کا جواب

متحدہ عرب امارات پر پیر کے روز حملے کے بعد حوثی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ ان حملوں کا مقصد مارب میں حوثیوں کو پسپا کرنے والی مقامی ملیشیا کی مدد کرنے پر متحدہ عرب امارات کو سزا دینا تھا۔

متحدہ عرب امارات یمن میں حوثیوں سے برسرِ پیکار 'جائنٹ بریگیڈز' کی مدد کررہا ہے۔ جائنٹ بریگیڈز نے رواں ماہ کے آغاز میں یمن کے جنوبی صوبے شبوہ سے حوثیوں کو پسپا کردیا تھا اور اس کے بعد شمال میں بھی پیش قدمی شروع کردی تھی۔

رائٹرز کے مطابق جائنٹس بریگیڈ نے منگل کو شمال میں مارب کے ضلع حریب کا کنٹرول سنبھالنے کا دعویٰ بھی کیا۔

کیا یمن جنگ خطے کے دیگر ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:26 0:00

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق شمال میں مارب کا علاقہ حوثی باغیوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اس کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے گزشتہ برس سے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور وہ مارب شہر کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔

مارب پر کنٹرول حاصل ہونے کی صورت میں پورا شمالی یمن حوثیوں کے کنٹرول میں آجائے گا اور وہاں موجود تیل کے ذخائر بھی انہیں مل جائیں گے جس سے مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کے لیے ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہوجائے گی۔

’یمن جنگ کا نیا باب!‘

مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر مارک گوتالیر کا کہنا ہے کہ شبوہ میں جاری لڑائی میں عرب امارات کے حامیوں کا پلڑا بھاری ہے۔ ایسی صورت حال میں حوثیوں کے امارات پر حملوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یمن کی جنگ میں نیا باب شروع ہو رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حوثی یمن میں جنگ کے آغاز ہی میں امارات کو نشانہ بنانا چاہتے تھے لیکن ممکنہ طور پر اس وقت وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکے۔ لیکن 2019 میں حوثیوں نے امارات کی سرحد سے متصل شیبہ کے علاقے میں سعودی آئل فیلڈ کو نشانہ بنایا تھا جو امارات کے لیے بھی واضح پیغام تھا۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق اس حملے کے بعد امارات نے یمن سے اپنی فوج واپس بلالی تھی لیکن جنوبی یمن میں فعال علیحدگی پسندوں کے اتحاد ’ساؤتھ ٹرانزیشنل کونسل‘ اور شبوہ میں ’جائنٹس بریگیڈز‘ کی حمایت جاری رکھی۔ امارات کی مدد سے 'جائنٹس بریگیڈز' کی پیش قدمی کے نتیجے میں حوثیوں کو مسلسل پسپائی کا سامنا ہے اور اسی کے ردِعمل میں انہوں نے یو اے ای پر حملے کیے ہیں۔

جنگ کی بھاری قیمت

وال اسٹریٹ جرنل میں صحافی روری جونز کی ایک رپورٹ کے مطابق حوثی اپنی کارروائیوں کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارت کو یمن جنگ کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

حوثی ملیشیا کے ترجمان یحیی سرائی نے پیر کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ الظفرہ ایئر بیس سمیت متحدہ عرب امارات میں مختلف مقامات کو نشانہ بنانے کے لیے بیلسٹک میزائل اورڈرونز کا استعمال کیا گیا تھا۔

یمن میں امن کیسے ہوگا؟ بحران کا دورانیہ اتنا طویل کیوں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:43 0:00

ترجمان نے دھمکی دی تھی کہ متحدہ عرب امارات کو مستقبل میں بھی نشانہ بنایا جائے گا اور یہ اب محفوظ ملک نہیں رہے گا۔ ترجمان نے تمام غیر ملکی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو امارات چھوڑنے کا انتباہ بھی دیا تھا۔

حوثیوں نے حالیہ حملوں میں جس الظفرہ ایئر بیس کو نشانہ بنایا تھا وہاں امریکہ اور برطانیہ کے فوجی اہل کار بھی موجود تھے جنہیں حملے کے وقت بنکر میں پناہ لینا پڑی تھی۔

اس کارروائی کے بعد ابو ظہبی میں قائم امریکہ کے سفارت خانے نے امارات میں موجود اپنے شہریوں کو سیکیورٹی سے متعلق باخبر رہنے کا انتباہ جاری کیا تھا۔ یو اے ای میں اس سے قبل سیکیورٹی سے متعلق ایسے تحفظات پہلے کبھی سامنے نہیں آئے۔

معاشی مشاورت فراہم کرنے والی برطانوی کمپنی ورسک میپلروفٹ سے منسلک ماہر ٹوربجورن سالٹوٹ نے 'اے پی' سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب کی طرح امارات پر بھی ہر ہفتے ایسے حملے معمول بن گئے تو اس سے متحدہ عرب امارات کا تاثر تبدیل ہوجائے گا۔

مارک گوتالیر کے مطابق 2019 میں امارات نے بظاہر یمن تنازع سے اپنے قدم پیچھے ہٹا کر اپنی توجہ دبئی ایکسپو 2020 پر مرکوز کردی تھی جو اس وقت بھی جاری ہے۔ متحدہ عرب امارات نے اپنی معیشت میں نئی روح پھونکنے اور سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے اس ایکسپو میں بے پناہ سرمایہ کاری کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حوثی جانتے ہیں کہ وہ اماراتی فوج کو شکست نہیں دے سکتے کیوں کہ یہ خلیج کی چند مضبوط ترین افواج میں سے ایک ہے۔ لیکن امارات پر حملے کرکے دراصل وہ اس کی معاشی خوشحالی اور ترقی کی شناخت کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس لیے جہاں تک دبئی کے اس امیج پر حوثیوں کے حملوں کے معاشی اثرات کی بات ہے تو یہ مستقبل میں تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ اب صورتِ حال متحدہ عرب امارات کے ہاتھ میں ہے کہ وہ یمن میں جاری جنگ کے اثرات کا کس طرح مقابلہ کرتا ہے۔

جائنٹس بریگیڈز کی شبوہ میں کامیابیوں سے یہ توقعات بڑھی ہیں کہ عرب ممالک کا اتحاد مقامی اتحادیوں کے ساتھ مل کر حوثیوں کو مارب سے پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ لیکن خلیج کے تحفظ میں اگر امریکہ اور بین الاقوامی برداری اپنا کردار ادا نہیں کرتے تو ابوظہبی پر ہونے والے حملے امارات کو یمن میں اپنے اتحادیوں سے تعاون پر نظر ثانی کے لیے مجبور کرسکتے ہیں۔

مارک گوتالیر کے مطابق حوثیوں نے اگرچہ متحدہ عرب امارات کو یمن کی جنگ سے دور رکھنے کے لیے حملے کیے ہیں لیکن منطقی طور پر اس کے برعکس ہوگا اور امکان یہ ہے کہ یو اے ای ان حملوں کا بھرپور جواب دے گا۔

حوثیوں کی عسکری قوت

یمن میں حوثی باغیوں کی عسکری قوت کے پیچھے کئی عوامل بیان کیے جاتے ہیں۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے پاس یمن میں جنگ کے آغاز ہی سے وسائل موجود تھے اور شمالی یمن میں اپنے قدم جمانے کے بعد انہیں اس کی کبھی کمی نہیں رہی۔

مارک گوتالیر کے مطابق شمال میں پیش قدمی کے دوران حوثیوں نے پسپا ہونے والی سابق صدر علی عبداللہ صالح کی فوج کا اسلحہ بارود حاصل کیا۔ اس میں بیلسٹک میزائلوں کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس کے ساتھ ہی حوثیوں نے یمن کے سابق فوجیوں کو بھی اپنے ساتھ ملایا جو یہ یہ میزائل اور ہتھیار چلانا جانتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ حوثیوں نے ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے نیٹ ورک پر بھی قبضہ کرلیا ہے۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ یمن میں مقامی سطح پر دہائیوں سے ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے ایسے کئی نیٹ ورک موجود تھے۔

مارک گوتالیر کا کہنا ہے کہ فارس مناع یمن کا معروف ترین اسلحہ اسمگلر تھا اور اسےسابق صدر عبداللہ صالح کے قریبی لوگوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ فارس اب حوثیوں کی حکومت میں وزیر ہیں۔

ایران کا کردار

مارک گوتالیر کے نزدیک حوثیوں کی عسکری طاقت کے پیچھے کارفرما ان عوامل کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ ایران نے حوثیوں کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی دی ہے۔ ان کے بقول ایران کی مدد حوثیوں کی طاقت میں اضافے کا کلیدی سبب ہے۔

یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمہ دار کون؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:42 0:00

اقوامِ متحدہ بھی ایران پر الزام عائد کر چکی ہے کہ وہ یمن میں حوثیوں کو اسلحہ فراہمی پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ لیکن حوثی اور ایران دونوں ہی اس کی تردید کرتے ہیں۔

مارک گوتالیر کے مطابق یمن میں ایران حوثیوں کو صرف میزائل ہی فراہم نہیں کررہا بلکہ ایسے پرزے بھی فراہم کررہا ہے جن پر اقوامِ متحدہ کی پابندیوں کا براہِ راست اطلاق نہیں ہوتا۔

ان کے مطابق یہ زیادہ تر ایسے پرزے ہیں جو ڈرون تیار کرنے میں استعمال ہوتے ہیں ۔ ڈرون حملےحوثیوں کی نئی حکمتِ عملی کا ایک اہم ہتھیار ہیں اور امارات پر ہونے والے حالیہ حملوں میں بھی ان کا استعمال کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ حوثیوں کو زیادہ تر ایران کی فوج پاسداران انقلاب کی شاخ قدس فورس نے تربیت فراہم کی ہے لیکن انہوں نے لبنان میں حزب اللہ سے بھی تربیت حاصل کی ہے۔

’حوثیوں کی طاقت بڑھ رہی ہے‘

مارک گوتالیر کا کہنا ہے کہ ہم فی الوقت یہ تو نہیں جانتے کہ حوثیوں کے پاس کتنی جنگی استعداد اور ہتھیار ہیں لیکن ان کے معیار اور مقدار میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ خاص طور پر دور تک مار کرنے کی صلاحیت بتدریج بڑھی ہے۔

اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے ماہرین نے حوثیوں کے حملوں کے بعد ملبے کے جائزے کے بعد اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان سے ملنے والے ہتھیاروں کے ٹکڑوں کا سراغ بلا شبہ ایران تک جاتا ہے۔ ان میں وہ ہتھیار شامل ہیں جو براہِ راست ایران سے آئے ہیں یا ان کی نشان دہی اس لیے ہوئی کہ ان میں ایران کی چینی سے حاصل کی گئی ٹیکنالوجی استعمال ہوئی تھی۔

مارک گوتالیر کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے لیے حوثیوں کے میزائل حملوں میں پریشان کن پہلو یہ ہے کہ ان کے میزائل کارگر ہیں اور ان کی لاگت بہت کم ہے۔ لیکن ریاض اور دبئی کو ان کے مقابلے کے لیے کثیر سرمایہ خرچ کرنا پڑے گا۔

حملوں کی ٹائمنگ اہم کیوں؟

امریکی تھنک ٹینک ’اٹلانٹک کونسل‘ کی ویب سائٹ پر متحدہ عرب امارات پر حوثیوں کے حملوں کے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ساؤتھ فلوریڈا سے منسلک بین الاقوامی امور کے ماہر سینا آزادی کا کہنا ہے کہ یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب ایران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال میں حوثیوں کے حملوں کو دو طرح دیکھا جاسکتا ہے۔ اول یہ کہ اب ان پر ایران کا زیادہ کنٹرول نہیں رہا۔ جب کہ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امارات پر حملے کرکے حوثی اپنے مفاد کے لیے ایران کی امارات کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایرانی حکومت میں بعض عناصر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ حوثیوں کے میزائل حملے مذاکرات کے دوران امارات پر دباؤ ڈالنے کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG