متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے دارالحکومت ابو ظہبی میں یمن کے حوثی باغیوں کے مبینہ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے پاکستان کے شہری معمور خان کی تدفین ان کے آبائی علاقے میں کر دی گئی ہے۔ ان کے ایک بیٹے نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں بتایا ہے کہ والد اپنے علاقے میں ڈرون حملوں سے خوفزدہ تھے، کیا خبر تھی کہ وہ ابوظہبی میں بدقسمتی سے ڈرون حملے میں ہی زندگی کی بازی ہار دیں گے۔
حملے میں مارے جانے والے 49 سالہ معمور خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلعے شمالی وزیرستان میں تحصیل میر علی کے علاقے عیسوڑی سے تھا۔ ان کے خاندان کے مطابق 1973 میں پیدا ہونے والے معمور خان 1999 میں روزگار کے سلسلے میں یو اے ای گئے تھے اور گزشتہ 23 سال سے وہاں مقیم تھے۔ اس وقت وہ ایک آئل کمپنی میں بطورڈرائیور نوکری کر رہے تھے۔
یمن کے حوثی باغیوں نے 17 جنوری کو ابوظہبی کے صنعتی علاقے مصفح میں مبینہ ڈرون حملہ کیا تھا جس میں ایک پاکستانی اور دو بھارتی شہری ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے میں متحدہ عرب امارات کی سرکاری آئل کمپنی کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں آئل سے بھرے تین ٹینکروں میں آگ بھڑک اٹھی اور اس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوئے تھے۔
حملے میں ہلاک ہونے والے پاکستانی شہری معمور خان کے بڑے بیٹے یاسر احمد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں اس واقعے کا علم ایک رشتے دار کے ذریعے ہوا تھا۔ انھوں نے ابوظہبی سے کال کے ذریعے انھیں اطلاع دی تھی۔ البتہ یہ خبر انہوں نے باقی خاندان سے چھپا کر رکھی تھی تاہم جلد ہی یہ خبر گاؤں میں پھیل گئی اور لوگ تعزیت کے لیے آنا شروع ہو گئے۔
یاسر احمد کے مطابق ان کے چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ غربت کے سبب وہ خود تو تعلیم کے حصول سے محروم رہے البتہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ ان کے باقی اولاد تعلیم حاصل کرے اور اچھے روزگار سے وابستہ ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے والد روز ہی کال کرتے تھے وہ سال میں ایک مہینے کی چھٹی پر پاکستان آتے تھے۔
عیسوڑی کا علاقہ تحصیل میر علی سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں داوڑ قبیلہ بھی آباد ہے۔ عیسوڑی کے ہی ایک مکین منور شاہ نے بتایا کہ معمور خان کی میت جمعرات کی شام لائی گئی تھی۔ ان کے آبائی علاقے میں قبر پہلے سے ہی تیار تھی اسی لیے شام میں ہی تدفین کا عمل مکمل ہو گیا۔
انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ تعزیت کے لیے دیگر علاقوں سے بھی لوگ زیادہ تعداد میں آ رہے ہیں کیوں کہ ایسا اس علاقے میں پہلے کبھی بھی نہیں ہوا۔
منور شاہ کے مطابق معمور خان کے خاندان کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اس لیے انھوں نے بچپن سے ہی اپنے والد کی شہر میں ان کی دکان میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا تھا۔
معمور خان کے 20 سالہ بیٹے یاسر احمد کا کہنا تھا کہ انھیں گاؤں میں کچھ مسائل درپیش تھےجب کہ پہلے القاعدہ اور طالبان کے خلاف امریکہ کے ڈرون طیارے بھی ان کے گاؤں سمیت دیگر علاقوں پر پرواز کرتے تھے جس کی وجہ سے علاقے میں خوف و ہراس رہتا تھا۔ اسی وجہ سے ان کے والد نے خاندان کو بنوں منتقل کر دیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب وزیرستان میں آسمان سے ڈرون طیارے غائب ہو گئے ہیں تو ان کے والد ایک پرائی جنگ میں متحدہ عرب امارات کی سر زمین پر ڈرون حملے کا شکار ہو گئے۔
یاسر احمد کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس حوالے سے ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ اپنا مستقبل بہتر کر سکیں۔
واضح رہے کہ یمن کا تنازع 2014 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب حوثی باغیوں نے ملک کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا یہ قبضہ اب بھی برقرار یت البتہ 2015 میں سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد، جس میں متحدہ عرب امارات بھی شامل ہے، نے یمن میں عسکری مداخلت کی تھی۔ ایران پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی حمایت اور مدد کرتا ہے البتہ تہران اس کا انکار کرتا رہا ہے۔حوثی باغی قبل ازیں سعودی عرب کو بھی متعدد بار میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے نشانہ بنا چکے ہیں۔