کرونا کی وبا کے آغاز میں ریان ولسن پوری توجہ سے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے، ماسک پہنتے، سماجی سطح پر گھلنےملنے سے احتراز کرتے اور مارکیٹ جانے کے بجائے آن لائن شاپنگ کرتے تھے۔
کیسل بیری ، فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے 38سالہ سمندری خوراک کے تاجر ریان ولسن کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس ویکسین لگانے کے بعد وہ مطمئن ہوگئے تھے۔ دوستوں اور والدین سے ملاقاتیں کرنے لگے ،لیکن گروسری مارکیٹ جیسی جگہوں پر ماسک ضرور پہنتے۔ وائرس کے حالیہ پھیلاؤ پر بھی ان کے رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی کیونکہ انھوں نے ویکسین لگوالی تھی اور پڑھ رکھا تھا کہ ویکسین لگانے کےبعد شدید بیمار ہونے کا امکان کم ہے۔
اور بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ولسن کو بھی یقین ہے کہ شاید کوویڈ نانٹین کبھی مکمل طور پر ختم نہ ہو ۔ وہ کہتے ہیں کہ کرونا ایک عالمگیر وبا سے عام وبائی مرض کی شکل اختیار کرلے گا اور اسی صورتحال میں ہمیں زندگی گزارنی ہو گی۔یہ مایوس کن بات ہے لیکن ہم کیا کرسکتے ہیں؟
بہت سے امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اسی صورتحال میں رہیں گے یا کم از کم طویل مدت تک یہی حالت رہے گی۔ ایسوسی ایٹڈ پریس اور این او آر سی سینٹر فار پبلک افیئر ریسرچ کے سروے کے مطابق صرف پندرہ فیصد لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسی وقت سمجھیں گے کہ کرونا ختم ہو گیا ہے جب اسے بڑے پیمانے پر ختم کر دیا جائے گا۔ان کے مقابلے میں 83فیصد لوگ کہتے ہیں کہ یہ جب بڑے پیمانے پر کم بیمار کرنےوالا ہوجائے گا تو وہ سجھیں گے کہ یہ ختم ہو گیا ہے۔
سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ 59 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ یہ ضروری ہے کہ عوامی سرگرمیوں میں محفوظ انداز میں حصہ لینے کےلیے کوویڈ نانٹین مدافعت کے لیے ویکسین لگوالی جائے۔
لیکن اس بات کو سمجھنے کا باوجود حکام کے مطابق پانچ سے گیارہ سال کی عمرکے امریکی بچوں میں ویکسین لگانے کی شرح خطرناک حد تک کم ہے، صرف 37 فیصد والدین اس بات کو ضروری سمجھتے ہیں کہ معمولات بحال کرنے سے پہلے ان کے بچوں کو ویکسین لگوائی جائے۔
فلوریڈا کے ولسن نے کہا کہ وہ ویکسین لگوا چکا ہے لیکن وہ اپنی پانچ سالہ بچی کو ویکسین نہیں لگوائے گا کیونکہ اس نے سنا ہے کہ صحت مند بچوں کو صرف سردی لگنے کی علامت ظاہرہونےسے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔
مناپلس میں ایک 36سالہ صحت عامہ کے محقق کولن پلانالپ نے اپنے چھ سالہ بیٹے کو فوراً ہی ویکسین لگوالی اور کہا کہ بچے واقعی کوویڈ نانٹین سے بیمار پڑسکتے ہیں ۔یہ صحت کے حکام کی غلطی ہے کہ وہ عوام کو اب تک یہ واضح نہ کرسکے۔
اگرچہ بچے صحت کے معاملے میں بڑوں سے کہیں بہتر ہوتے ہیں، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ اس وائرس سے شدید بیمار اور طویل مدتی صحت کی خرابی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔
سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وائرس سے بچاؤکے لیے اومیکرون کی آمد سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ امریکی احتیاطی تدابیر اختیارکررہے ہیں۔ مجموعی طور پر 64 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ بڑے اجتماعات سے گریز کرتے ہیں اور 65 فیصد لوگ اجتماعات میں ماسک پہنتے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں دسمبر میں 57فیصد کی سطح پر تھیں۔ 60فیصد لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل غیر ضروری سفر سے گریز کررہے ہیں جب کہ ایک ماہ قبل تک یہ شرح 53فیصد تھی۔لوگوں کی احتیاط کی یہ شرح گزشتہ سال موسم بہار کے بعد سے سب زیادہ ہے، جب لاکھوں امریکیوں کو ویکسین بھی نہیں لگی تھی۔
وبائی بیماری کے شروع میں پلانالپ اور ان کی اہلیہ نے مہینوں گھر پر رہ کر کام کیا اور اپنے جوان بیٹے کو بھی گھر میں ہی رکھا، لیکن جب انھیں ویکسین لگ گئی تو وہ باہر جانے لگے ،خاندان سے ملنے لگے یہاں تک کہ دفتر میں بھی جزوقتی کام کرنے لگے۔ پھر جب نیا ڈیلٹا ویرینٹ آیا تو انھوں نے احتیاطی تدابیر کو اور بڑھا دیا۔
پلانالپ کا کہنا ہے کہ اس نے این نائنٹین ماسک پہنا شروع کردیا ہے کیونکہ اب کپڑےکے ماسک پر اعتماد نہیں اور وہ شاید ہی باہر جاتے ہیں۔پلانالپ کہتے ہیں کہ ہم نے سفر پر جانے کا منصوبہ منسوخ کر دیا ہے، میرا بیٹا ایک ہفتے سےزیادہ عرصے سے اسکول نہیں گیا۔
پچاس سالہ ڈیوڈکلوز جن کو ویکسین نہیں لگی ، کہتے ہیں کہ ان کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یہ میرے لیے ختم ہوچکا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں واقعتًا کسی بھی قسم کی وبا سے خوف نہیں کھاتا۔ کلوز، جو مئی میں ٹمپا فلوریڈا سے ٹینیسی منتقل ہوئے ، کا کہنا ہے کہ انہیں ، ان کی بیوی اور ان کے دو بچوں کو اکتوبر میں کوویڈ نانْٹین ہوا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی بیوی کو ڈیوٹی کےدوران کوویڈ ہوا تھا لیکن انھوں نے ان کو خاندان سے الگ تھلگ نہیں کیا ۔
وہ کہتے ہیں کہ " میں ہر رات بستر پراس کے ساتھ ہی لیٹتا اور سوتا تھا، کلوز کا کہنا ہے کہ اسے چوبیس گھنٹے تک ایک سو تین یا ایک سو چار کا بخار تھا اور چھتیس گھنٹے کے اندر اندر وہ ٹھیک ہوگئے لیکن تقریباً دس دن لگے ذائقہ واپس آنے میں اور منہ کی بو ختم ہونے میں۔ وہ کہتےہیں کہ میں ایسی چیزوں سے نہیں ڈرتا۔
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں کو یہ بیماری لگ چکی ہے انھیں ویکسین کرونا کے خلاف اضافی تحفظ فراہم کرتی ہے، اس وبا کی وجہ سے آٹھ لاکھ پچاس ہزار امریکی ہلاک ہوچکے ہیں۔
مینرس ویل ، یوٹا میں57سالہ ریاضی کی استاد اور آٹھ بچوں کی ماں جیمی کوسٹیلو کو ویکسین نہیں لگائی گئی ، اس لیے نہیں کہ وہ ویکسین کی مخالف ہیں بلکہ اس لیے کہ فلو شاٹ سے انھیں سخت ری ایکشن ہو جاتاہے، اور کرونا کی بیماری سے صحت یاب بھی ہوچکی ہیں۔بہت سے دوسرے امریکیوں کی طرح کوسٹیلو بھی سمجھتی ہیں کہ کوویڈ نانٹین بھی فلو کی طرح کی کوئی چیز ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ تیزی سے تبدیل ہوتا وائرس ہے، ہمیں آخر کار صرف فلو کا موسم کہنے کی بجائے فلو اور کوویڈ کا موسم کہنا پڑے گا۔اور ہمیں جتنی جلد ہوسکے معمولات بحال کرنا پڑیں گے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)