رسائی کے لنکس

راہول گاندھی کے چین اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق بیان پر بھارت میں تنازع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت کانگریس کے سینئر رہنما اور رکنِ پارلیمنٹ راہول گاندھی کے اس الزام پر کہ نریندر مودی حکومت کی خارجہ پالیسی بری طرح ناکام ہو گئی ہے اور اس پالیسی کی وجہ سے ہی پاکستان اور چین ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں، بظاہر ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔

ان کے اس الزام پر بھارت کی حکومت نے تو ردِ عمل ظاہر کیا ہی ہے امریکہ کے محکمۂ خارجہ کا بھی ردِ عمل سامنے آیا ہے البتہ پاکستان اور چین کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

راہول گاندھی نے بدھ کو پارلیمنٹ میں بجٹ پر ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے مودی حکومت پر متعدد الزامات عائد کیے۔ انھو ں نے اپنی 45 منٹ کی تقریر میں کہا کہ بھارت چاروں طرف سے مخالفین سے گھر گیا ہے اور وہ خطے میں الگ تھلگ پڑ گیا ہے۔

’بھارت سنگین خطرے سے دو چار ہے‘

راہول گاندھی کا کہنا تھا کہ بھارت کا اسٹریٹجک ہدف چین اور پاکستان کو الگ الگ رکھنا ہونا چاہیے لیکن حکومت نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔ حکومت نے عوام کے ساتھ یہ بہت بڑا جرم کیا ہے۔ بھارت ایک سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ اس خطرے کو کم کرکے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا کہ چین کو کیا کرنا ہے اس بارے میں وہ بہت واضح نظریہ رکھتا ہے لیکن بھارت نے چین اور پاکستان کو قریب کر دیا ہے۔

ان کے بقول چین کبھی بھی کوئی بھی قدم اٹھا سکتا ہے۔بھارت کو چین اور پاکستان دونوں محاذوں پر تیاری کرنے کی ضرورت ہے البتہ حکومت کی کوئی تیاری نظر نہیں آتی۔

انھوں نے جموں و کشمیر کے سلسلے میں کہا کہ ہم نے وہاں بہت بڑی غلطی کی ہے۔

اگر چہ انھوں نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی لیکن مبصرین کے مطابق ان کا اشارہ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے کی طرف تھا۔

انھوں نے بھارت کے مبینہ طور پر الگ تھلگ ہونے کے سلسلے میں یہ بھی کہا کہ اس بار یومِ جمہوریہ کی تقریبات میں حکومت کسی غیر ملکی مہمان کو مدعو نہیں کر سکی۔

یاد رہے کہ بھارت کا یومِ جمہوریہ 26 جنوری کو منایا جاتا ہے جس پر ہونے والی فوجی اور ثقافتی پریڈ کے دوران کسی غیر ملکی سربراہِ مملکت کو مدعو کرنے کی روایت رہی ہے البتہ اس بار کوئی غیر ملکی مہمان پریڈ میں شریک نہیں تھا۔

کانگریس رہنما نے یہ الزام بھی لگایا کہ آج بھارت کو بیرونی اور اندرونی دونوں خطرات لاحق ہیں۔ یہ بہت خطرناک صورتِ حال ہے اور وہ اس صورت حال میں پریشانی محسوس کر رہے ہیں۔

’آج دو بھارت ہیں‘

راہول گاندھی نے یہ بھی کہا کہ آج دو بھارت ہیں۔ ایک امیر ہے اور دوسرا غریب ہے۔ ان کے بقول امیر اور امیر ترہو رہے ہیں اور غریب مزید غریب ہو رہے ہیں۔ کسی کو ملازمت نہیں مل رہی، روزگار نہیں ہے البتہ حکومت نے راجاؤں کا دور واپس لے آئی ہے اور راجہ کسی کی سن نہیں رہا ۔

انھوں نے الزام لگایا کہ حکومت عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس کی مدد سے عوام کی آواز دبا رہی ہے۔

راہول گاندھی کے ان الزامات پر حکومت کی جانب سے سخت ردِ عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

’راہول تاریخ کا مطالعہ کریں‘

بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نےسوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ راہول گاندھی نے حکومت پر چین اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب کرنے کا الزام لگایا ہے البتہ انھیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ چین نے 1970 میں پاکستان کے قبضے والے کشمیر سے شاہراہِ قراقرم تعمیر کی۔ 1970 کے بعد سے دونوں ممالک میں قریبی جوہری اشتراک ہے۔ 2013 میں چین پاکستان اقتصادی راہداری(سی پیک) کا آغاز ہوا لہٰذا وہ (راہول گاندھی) خود سے پوچھیں کہ چین اور پاکستان ایک دوسرے سے دور کب تھے۔

یومِ جمہوریہ کی تقریبات کے موقع پر کسی غیر ملکی مہمان کی عدم موجودگی کے سلسلے میں جے شنکر نے کہا کہ جو لوگ بھارت میں رہتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ ہم کرونا وبا کے درمیان ہیں۔ پانچ وسطی ایشیائی ملکوں کے سربراہوں نے جو اس موقع پر آنے والے تھے، 27 جنوری کو ورچوئل کانفرنس کی۔ کیا راہول گاندھی اس سے واقف نہیں ہیں۔

امریکہ کا ردِ عمل

پاکستان اور چین کے تعلقات پر راہول گاندھی کے بیان پر امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ ان کے اس بیان کی توثیق نہیں کریں گے۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس سے جب صحافیوں نے راہول گاندھی کے بیان کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ میں اس معاملے کو پاکستان اور چین پر چھوڑتا ہوں۔ وہ اپنے باہمی رشتوں کے بارے میں بتائیں۔ ان کے بقول دنیا کے ملکوں کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کو منتخب کریں۔

انھوں نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ پاکستان امریکہ کا اسٹریٹجک شراکت دار ہے۔

سینئر دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کانگریس رہنما راہول گاندھی کا الزام بے بنیاد نہیں ہے۔

ان کے بقول جب بھارت نے جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ کیا اور اسے مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے لداخ اور جموں و کشمیر قرار دیا تو چین نے لداخ کو مرکزی خطہ بنانے کے فیصلے کو مسترد کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ چین کا مؤقف یہ ہے کہ لداخ میں بھارت کے ساتھ اس کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ جب کہ بھارت نے لداخ کو مرکز کے زیرِ انتظام خطہ بنا کر ایک سرحد قائم کر دی ہے۔ حکومت کے اس قدم کے بعد ہی چین کی فوج اپریل 2020 میں لداخ میں آ کر بیٹھ گئی ہے۔

ان کے مطابق پہلے صرف پاکستان جموں و کشمیر پر دعویٰ کرتا تھا اب صورت حال بدل گئی ہے۔ حکومت کے اس قدم کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان فوجی، سیاسی اور اسٹریٹجک قربت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

پروین ساہنی چین کے اس مؤقف کی تائید کرتے ہیں کہ لداخ میں اس کی سرحد نہیں تھی۔ان کے بقول چین کی سرحد اروناچل پردیش تک ہی تھی۔

انھوں نے کہا کہ پہلے جموں و کشمیر پر پاکستان کا دعویٰ تھا اب لداخ پر چین کا دعویٰ ہو گیا ہے۔

انھوں نے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے اس بیان پر کہ چین اور پاکستان پہلے بھی ایک دوسرے کے قریب رہے ہیں، کہا کہ یہ بات درست ہے لیکن پہلے اور اب میں فرق ہے۔ پہلے جب پاکستان جموں و کشمیر کے بارے میں بات کرتا تھا کہ وہ ایک متنازع علاقہ ہے اور وہ متنازع ہے بھی، تو اس وقت چین پاکستان کی ہتھیاروں سے مدد کرتا تھا۔ لیکن وہاں چین کی براہِ راست موجودگی نہیں تھی لیکن اب ہو گئی ہے۔

پروین ساہنی نے راہول گاندھی کے بیان پر امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے بیان کے سلسلے میں اس خیال کا اظہار کیا کہ امریکہ کو بھارت کی خارجہ پالیسی سے کیا تعلق ہے۔ بھارت کا اپوزیشن رہنما پارلیمنٹ کے اندر بیان دے رہا ہے امریکہ کی جانب سے اس کی توثیق کرنے کا کیا مطلب ہے۔ ان کے بقول یہ تو ویسے ہی ہے کہ اگر کل کو نریند رمودی بول دیں کہ ہم جو بائیڈن کی خارجہ پالیسی کی توثیق نہیں کرتے۔

اس سے قبل پروین ساہنی نے اپنے دفاعی جریدے ’فورس‘ کے لیے آن لائن ویڈیو میں کہا تھا کہ گلوان میں ٹکراؤ کے چار روز بعد ہی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ کوئی ہمارے علاقے میں نہ تو آیا ہے اور نہ ہی کسی کا قبضہ ہے۔ انھوں نے اس طرح چین کو یہ واضح پیغام دیا کہ ہم لڑائی کی طاقت نہیں رکھتے ہم لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر امن و استحکام کے سلسلے میں چین کی شرائط تسلیم کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ راہول گاندھی کے اس الزام پر وزیرِ خارجہ کے علاوہ دوسرے وزرا اور حکمران جماعت کے رہنماؤں نے بھی سخت ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔

کیا راہول گاندھی چین کی حمایت کر رہے ہیں؟

پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی کا کہنا ہے کہ راہول گاندھی کا ذہن صاف نہیں ہے۔ وہ کنفیوزڈ ہیں۔انھوں نے سوال اٹھایا کہ کیا وہ چین کی حمایت کر رہے ہیں۔

انھوں نے الزام لگایا کہ تبت کا مسئلہ کانگریس کا دیا ہوا ہے۔

'پاکستان اور چین کی قربت امریکہ کی وجہ سے نہیں '

پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ خطے میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان ایک دوسرے کے قریب ہوگئے ہیں۔


وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان اور چین گزشتہ 70 سال سے نہایت قریبی دوست رہے ہیں اور یہ دوستی اب بھی برقرار ہے۔ چین نے کبھی بھی پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی بلکہ بین الاقوامی سطح پر چین نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے اور دوسری جانب پاکستا ن بھی چین کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات بابت بیجنگ حمایت کرتا رہا ہے کیوں کہ پاکستان اور چین کی دوستی باہمی اعتماد اور باہمی احترام پر مبنی رہی ہے اسی لیے یہ دوستی اب بھی قائم ہے۔

اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کے سیاسی تعلقات پہلے اچھے تھے اور اب سی پیک کے بعد اقتصادی تعلقات بھی گہرے ہو گئے اور وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہ چین کے بعد اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔

لیکن انہو ں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان چین کے قریب ہے اس لیے وہ امریکہ سے دور ہو گیا ہے۔ ہر ملک کےساتھ تعلقات کی اپنی اپنی نوعیت اور مقام ہوتا ہے۔

اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے محکمۂ خارجہ کے ترجمان کے بیان سے متفق ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اچھے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کے باوجود امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اچھے رہے ہیں۔ آج بھی اقتصادی اور تجارتی لحاظ سے پاکستان کے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور انہیں مزید بہتر ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ دوسری جانب چین کی وجہ سے واشنگٹن ڈی سی کی ترحیحات کے تعین کے بعد امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آ گئے ہیں۔ لیکن اس زوایہ نگاہ سے پاکستان اور چین کے تعلقات کو نہیں دیکھنا چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج کے بین الاقوامی حالات میں ہر ایک ملک کے خارجہ تعلقات اس کے اپنے مفادات کے تابع ہیں۔

اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ جس طر ح امریکہ کے قریب ہونے کے باوجود بھارت نہ تو روس سے دور ہوا اور نہ ہی نئی دہلی نے بیجنگ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات میں کمی کی ہے۔ دوسری جانب چین اور امریکہ کے مسابقت کے باوجود واشنگٹن اور بیجنگ کے اقتصادی اور تجارتی تعلقات موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان چین کا دوست ہونے کے باوجود امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقا ت رکھنا چاہے گا۔

راہول گاندھی کے بھارت کی خارجہ پالیسی سے متعلق بیان کہ پاکستان اور چین ایک دوسرے کے قریب ہو گئے ہیں، پر تبصرہ کرتے ہوئے اعزاز چوہدری کا کہنا ہے کہ بھارت کے اندورنی سیاست کی وجہ حزبِ اختلاف کی طرف سے ایسے بیانات آتے رہتے ہیں البتہ خارجہ تعلقات کے بارے میں حکومت کے بیانات ہی زیادہ اہم ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں ایک سوچ ہے کہ ایسی صورتِ حال پیدا نہیں ہونی چاہیے جس میں بھارت کو چین اور پاکستان کو دو محاذوں میں ایک ساتھ سامنا ہو۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں بھارت اور امریکہ میں قربت بڑھی ہے اور بھارت میں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وجہ سے جنوبی ایشیا میں بھارت اپنا اثر وسوخ قائم کرسکتا ہے البتہ خطے کےممالک بشمول پاکستان کو یہ قبول نہیں ہو گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG