افغانستان میں غیر ملکی دہشت پرست گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافے سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ کو طالبان کی وزارت خارجہ نے مسترد کردیا ہے۔ لیکن پاکستان میں تحریک طالبان پاکستان کے مسلسل حملوں یا افغانستان میں داعش کے حملوں جیسے واقعات ماہرین کے بقول سلامتی کونسل کی رپورٹ کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔
کیا واقعی افغٖانستان کے اندر ایسے گروہ موجود ہیں جو طالبان کے کنٹرول سے باہر ہیں یا وہ بوجوہ ان کے خلاف کارروائی سے احتراز کرتے ہیں? ہم نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ افغانستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
ڈاکٹر مارون وائن بام، واشنگٹن کے مڈایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بلا شبہ غیر ملکی گروپ سرگرم ہیں۔ ان میں القاعدہ، داعش، تحریک طالبان پاکستان، ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ اور دوسرے کئی گروپ شامل ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ فعال داعش اور تحریک طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی) ہیں۔جب کہ اکثر غیر ملکی گروپ داعش سے وابستہ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ القاعدہ ابھی کمزور ہے لیکن امریکی انٹیلی جینس اداروں کی رپورٹیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ آنے والے مہینوں میں وہ بھی طاقت حاصل کر کے خطرہ بن سکتی ہے۔
داعش کے بارے میں افغانستان کے تمام ہی پڑوسی ملکوں کو تشویش ہے۔ جب کہ اس گروپ پر طالبان کا کوئی کنٹرول بھی نہیں ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی ایسا گروپ ہے جس نے طالبان کا جنگ کے دور میں ساتھ دیا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کے بقول اسی پس منظر کی بنا پر افغانستان کے طالبان اس پر سختی نہیں کرنا چاہتے۔ اسی لیے انہوں نے پاکستان سے ان کے مذاکرات کرانے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔لیکن یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے۔
ڈاکٹر وائن بام کا کہنا تھا کہ اس وقت طالبان کو اتنے چیلنجز درپیش ہیں کہ ان گروہوں پر کنٹرول کے لئے اپنے وسائل اور توانائیاں وقف کرنا ان کے لیے آخری ترجیح ہو گی۔اس مرحلے پر طالبان مزید دشمن بنانے کے متحمل نہں ہو سکتے۔
ڈاکٹر وائن بام کہتے ہیں کہ وسیع تر تناظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ درست دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان کی صورت حال کافی حد تک الجھی ہوئی ہے۔ وہاں چھپے ہوئے بہت سے گروپس فی الحال جارحانہ کارروائیاں نہیں کر رہے۔ خطے کے ممالک میں افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے خدشات پائے جاتے ہیں کیونکہ اندرونی اور بیرونی دباؤ کی وجہ سے اگر افغانستان مزید عدم استحکام کا شکار ہوتا ہے تو ان گروپس کا زیادہ فعال ہونے کا موقع مل جائے گا۔
دوسری جانب طالبان نہ صرف سلامتی کونسل کی رپورٹ کو مسترد کر چکے ہیں۔ بلکہ ان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ملک میں سیکیورٹی کی صورت حال بہت بہتر ہے۔
ڈاکٹر معظم ہاشمی، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے وابستہ ہیں وہ اور دہشت گردی سے متعلق امور پر نظر رکھتے ہیں۔وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیر ملکی گروپ افغانستان میں شروع ہی سے سرگرم ہیں اور یہ گروپ طالبان کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے سیکیورٹی کونسل کی تشویش اپنی جگہ بالکل جائز ہے۔
ڈاکٹر معظم کا کہنا تھا کہ یہ گروپ خطے کے ملکوں یا اس سے آگے دنیا کے لیے کتنے خطرناک ہوسکتے ہیں۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ دنیا طالبان کو کس حد تک کنٹرول کر سکتی ہے۔ کیونکہ یہ گروپ طالبان کے زیر سایہ ہی پھل پھول سکتے ہیں اور اگر طالبان کو، جن کا اب تک بقول ان کے سب سے بڑا ہتھیار تشدد رہا ہے، مالیاتی دباؤ کے ذریعے یہ باور کرا دیا جائے کہ مقاصد حاصل کرنے کے دوسرے طریقے بھی ہیں تو پھر وہ ان گروپوں کو بھی کنٹرول کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹر معظم کا کہنا تھا کہ طالبان کے حوصلے زیادہ بلند دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ کہ وہ اپنی موجودہ حیثیت میں ہی دنیا کے ملکوں کے ساتھ براراست مذاکرات کر رہے اور اب ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کے پاس ان سے براہ راست بات کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
طالبان کی جانب سے سلامتی کونسل کی رپورٹ مسترد کیے جانے پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر معظم نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت طالبان کے سوا کوئی دوسری طاقت موجود نہیں ہے، اس لیے طالبان یہ توقع کرتے ہیں کہ بالآخر دنیا کو بعد ازاں انہیں کی شرائط پر ان سے معاملات طے کرنا پڑیں گے۔ ڈاکٹر معظم نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اپنی توقعات پوری نہ ہونے کی صورت میں طالبان، ملک میں موجود ان گروپس کو اشارہ کر سکتے ہیں، جس سے بیرونی ممالک کے لیے صورت حال بگاڑ کی جانب بڑھ سکتی ہے، اس لیے دنیا کو بہت سوچ سمجھ کر طالبان سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔