امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکہ اور اس کے حلیف فیصلہ کن ردِ عمل دیں گے اور روس کو اپنے اس اقدام کی "فوری اور بھاری قیمت" چکانا ہوگی۔
ہفتے کو روسی صدر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے کہا کہ یوکرین پر حملے کے نتیجے میں خطے میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا۔
گفتگو کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ مغرب اگرچہ اس بحران کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے لیکن وہ کسی بھی دوسری صورتِ حال کے لیے مکمل تیار ہے۔
دونوں صدور کے درمیان تقریباً ایک گھنٹہ طویل ٹیلی فونک گفتگو ایسے موقع پر ہوئی جب ایک روز قبل ہی قومی سلامتی کے امریکی مشیر جیک سلیوان نے خبردار کیا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس کے مطابق روس بیجنگ میں جاری ونٹر اولمپکس کے خاتمے سے پہلے یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔ ونٹر اولمپکس 20 فروری کو ختم ہوں گے۔
روس یوکرین پر حملے کے ارادے کی نفی کرتا آیا ہے۔ لیکن اس نے یوکرین کی سرحد کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد فوج تعینات کر رکھی ہے جس میں وہ مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہمسایہ ملک بیلاروس میں روسی فوج کی مشقیں بھی جاری ہیں جس کی وجہ سے یوکرین تین طرف سے گھر چکا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد کے ساتھ فوج کی تعیناتی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکنے کی طاقت رکھتا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دونوں صدور میں یہ گفتگو ایسے وقت ہوئی ہے جب روس اور مغرب کے درمیان سرد جنگ کے بعد سب سے سنگین تنازع جاری ہے۔
امریکی حکام کا خیال ہے کہ ان کے پاس یوکرین پر حملے کو روکنے اور بڑی تعداد میں خونریزی سے بچنے کے لیے چند دن ہی باقی ہیں۔ امریکہ اور اس کے نیٹو حلیف روس سے لڑنے کے لیے یوکرین فوجی بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ لیکن حملے کی صورت میں روس پر لگنے والی پابندیوں کی وجہ سے تیل اور گیس کی رسد میں تعطل، عالمی منڈیوں میں عدم استحکام اور یورپ میں طاقت کا توازن بگڑنے کا خدشہ ہے۔
گفتگو کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’صدر بائیڈن نے صدر پوٹن پر واضح کیا کہ اگرچہ امریکہ اپنے حلیفوں اور شراکت داروں کے تعاون کے ساتھ سفارتی کوششوں کے لیے تیار ہے، لیکن ہم کسی بھی دوسری صورتِ حال کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘
اے پی کے مطابق امریکی حکومت کے ایک سینئر افسر نے رپورٹرز کو ٹیلی فونک گفتگو کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ دونوں صدور کے مابین کال پروفیشنل اور اہم تھی لیکن اس سے چند ہفتوں میں پیدا ہوئی صورتِ حال پر کوئی بنیادی اثر نہیں پڑا ہے۔
افسر کا کہنا تھا کہ اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آیا پوٹن نے ملٹری ایکشن کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔
روسی صدر کے خارجہ پالیسی کے اعلیٰ مشیر یوری اشاکوف نے کہا ہے کہ صدر بائیڈن نے ٹیلی فونک گفتگو میں زیادہ تر انہی خیالات کی تکرار کی جن کا اظہار انہوں نے روس کے سیکیورٹی خدشات کے ازالے کے لیے جنوری میں کیا تھا۔
ان کے مطابق اگرچہ بائیڈن نے کہا ہے کہ روس پر پابندیاں لگ سکتی ہیں لیکن روسی صدر کے ساتھ گفتگو میں یہ نکتہ توجہ کا مرکز نہیں تھا۔ان کے بقول دونوں رہنماؤں کے درمیان گفتگو متوازن تھی اور دونوں نے ہر سطح پر اپنے رابطے جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
اشاکوف نے یوکرین پر عنقریب حملہ ہونے سے متعلق امریکی بیانات اور دعووں کے متعلق کہا کہ "ہسٹیریااپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔"
روسی صدر نے بائیڈن سے فون پر گفتگو سے قبل فرانسیسی صدر ایمانوئیل میخواں سے بھی فون پر بات کی تھی جو ایک ہفتہ قبل ہی بحران حل کرنے کے لیے پوٹن سے ماسکو میں ملاقات کر چکے ہیں۔ کریملن کی جانب سے کال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان گفتگو میں بحران کو حل کرنے کی جانب کم ہی پیش رفت ہوسکی ہے۔
پوٹن نے اس کال میں اعتراض اٹھایا کہ امریکہ اور نیٹو نے روس کے ان مطالبات پر کوئی اطمینان بخش ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے کہ یوکرین کو نیٹو کا ممبر نہ بننے دیا جائے اور نیٹو مشرقی یورپ سے اپنی افواج واپس بلا لے۔
اس سے پہلے امریکی حکام نے کسی بھی حملے کی صورت میں تیار رہنے کے لیے یوکرین کے دارالحکومت کیف سے اپنا بیشتر سفارتی عملہ واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ برطانیہ نے بھی دوسرے کئی یورپی ممالک کی طرح یوکرین سے اپنے شہریوں کو نکلنے کی ہدایت کی ہے۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)