رسائی کے لنکس

یوکرین بحران میں کس کا ساتھ دیں؟ پاکستان مخمصے کا شکار


روس، یوکرین تنازع نے دنیا کے بعض ممالک کو ایک نئے مخمصے میں ڈال دیا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دیں؟ ایسی ہی مشکل کا سامنا پاکستان کو بھی ہے جو یوکرین سے دفاعی سازوسامان خریدتا ہے تو وہیں حال ہی میں اس نے روس سے 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔

امریکہ کے ایک اہم غیر نیٹو اتحادی ہوتے ہوئے بھی پاکستان نے بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی روس مخالف قرارداد پر ووٹنگ سے گریز کیا۔ یاد رہے کہ اس قرارداد میں روس کے اپنے پڑوسی ملک پر حملے کی مذمت کی گئی تھی۔ ایسا ہی 34 دیگر ممالک نے کیا، جن میں جنوبی ایشیا کے تین ممالک بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اس ہفتے کہا کہ پاکستان نے قرارداد پر ووٹنگ سے گریز اس لیے کیا کیونکہ قرارداد میں روس کے کچھ سلامتی کے خدشات کو دور نہیں کیا گیا تھا۔

وزیر اعظم عمران خان کی گزشتہ ہفتے کریملن میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے روس کے یوکرین پر حملے کے پہلے روز ہونے والی ملاقات کے تناظر میں پاکستان کا اس قرارداد پر ووٹنگ سے گریز کرنا یقینی سمجھا جا رہا تھا۔

عمران خان نے پیر کو قوم سے خطاب میں روس کی مذمت کرنے سے گریز کیا اور اس کے بجائے انہوں نے دورۂ روس پر ہونے والی تنقید کا دفاع کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پاکستان روس سے 20 لاکھ ٹن گندم حاصل کرے گا۔ اس موقع پرانہوں نے یوکرین کے ساتھ پاکستان کے دفاعی اور تجارتی معاہدوں پر کوئی بات نہیں کی۔

اگلے روز ایک نیوز کانفرنس میں، اسلام آباد میں یوکرین کے سفیر مارکیان چوچُک نے پاکستان کو یاد دلایا کہ اس نے پچھلے سال یوکرین سے 13 لاکھ ٹن گندم درآمد کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یوکرینی گندم نے پاکستان کی غذائی تحفظ میں مدد کی۔

یوکرینی سفیر نے کہا کہ "ہمیں امید ہے کہ ہمارے پاکستانی شراکت دار جنگ کی مذمت میں ایک جامع مؤقف اختیار کریں گے اور روس پر زور دیں گے کہ وہ کشیدگی میں کمی کرے ا ور اپنی جارحیت کو روکے۔"

روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور وزیرِ اعظم عمران خان کے درمیان حال ہی میں ملاقات ہوئی تھی۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور وزیرِ اعظم عمران خان کے درمیان حال ہی میں ملاقات ہوئی تھی۔

اناج کی خرید اری کے علاوہ، پاکستان یوکرین کے ساتھ دفاعی سازو سامان کی خریداری بھی کرتا رہتا ہے۔ یوکرین 1990 کی دہائی سے پاکستان کا دفاعی شراکت دار ہے۔ البتہ وزیرِ اعظم خان اور یوکرین کے سفیر دونوں نے اپنے بیانات میں دفاعی شراکت داری کا کوئی ذکر نہیں کیا۔

پاکستان سن 1997 سے یوکرینی ساختہ ٹی-80 ٹینکوں کی خریداری کر رہا ہے۔

عالمی دفاعی معاملات کی معروف اشاعت جینز کے مطابق اس وقت سے اب تک پاکستان کے پاس لگ بھگ 320 یوکرینی ساختہ ٹینکس ہیں۔

وائس آف امریکہ کی دیوا سروس کے ساتھ ایک انٹرویو میں ریٹائرڈ پاکستانی ایئر مارشل شاہد لطیف نے کہا کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پہلے یوکرین کی ٹیکنالوجی بلاک میں سب سے بہتر تھی۔ پاکستان نے چین سے ٹینک حاصل کیے تھے، لیکن یوکرین کے بنائے ہوئے ٹینکوں میں بہترین صلاحیتیں ہیں۔

گزشتہ برس جینز نے رپورٹ کیا کہ پاکستان نے 2021 میں یوکرین کے ٹی-80 اور 320 ٹینکوں کی مرمت اور دیکھ بھال کے لیے ساڑھے کروڑ ڈالر سے زائد کا معاہدہ کیا۔

پاکستان یوکرین سے ٹی-80 ٹینکوں کی خریداری کرتا ہے۔
پاکستان یوکرین سے ٹی-80 ٹینکوں کی خریداری کرتا ہے۔

پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل امجد شعیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا "ہمارے پاس الضرار اور T-80UD ٹینک ہیں۔ ہمارے پاس جدید چینی ٹینک بھی ہیں، لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ T-80UD ٹینک ہمارے اہم جنگی ٹینک ہیں۔"

اگرچہ پاکستان کی حکومت اور فوج درآمد شدہ ہتھیاروں کی صحیح تعداد یا قیمت کا انکشاف نہیں کرتی ہے۔ لیکن ہتھیاروں کے کنٹرول، اسلحہ سازی اور تخفیف اسلحہ پر نظر رکھنے والے ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق یوکرین اور پاکستان کے سن 1991 سے سن 2020 تک دفاعی معاہدوں کی مالیت 1.6 بلین ڈالر بتائی گئی ہے۔

مئی 2021 میں، پاکستان کے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کو کیف میں یوکرینی فوجی دستے نے اعزازی گارڈ کے ساتھ خوش آمدید کہا تھا۔

اس دورے کے بعد پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، دونوں ممالک نے فوجی تعلقات، خاص طور پر دفاعی پیداوار کو بہتر بنانے پر اتفاق کیا تھا۔

بعدازاں جنرل باجوہ نے یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف میں فوجی مقامات کا دورہ کیا جو اس وقت روسی محاصرے میں ہے اور ٹینک سازی کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔

یوکرین کے اخبار' کیف پوسٹ' کے مطابق پاکستان نے ستمبر 2021 میں یوکرین کے ساتھ ٹینکوں کی مرمت اور دفاعی سازو سامان کی خریداری کے لیے 15 کروڑ ڈالرز کے معاہدے کیے ہیں۔

اپنے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نےروس کی تعریف تو نہیں کی لیکن 21ویں صدی کی پہلی دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں "دہشت گردی کے خلاف جنگ" میں امریکہ کے لیے پاکستان کی حمایت پر افسوس کا اظہار کیا۔

پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف پاکستان میں سینکڑوں ڈرون حملوں کا حوالہ دیتے ہوئےعمران خان نے کہا کہ"سب سے شرمناک بات یہ تھی کہ ایک ملک ایک ایسے ملک کی حمایت میں لڑ رہا تھا جو اس پر بمباری کر رہا تھا۔"

یاد رہے کہ ڈرون مہم اور ٹارگٹڈ آپریشنز نے پاکستان میں متعدد سرکردہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا جن میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن بھی شامل ہیں۔

XS
SM
MD
LG