دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی منگل کو خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کا مقصد خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
معاشرے میں خواتین کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے اس دن ہر شعبے کے لوگ اپنی اپنی فیلڈ میں شاندار کار کردگی دکھانے والی خواتین کو خراجِِ تحسین پیش کرتے ہیں۔
پاکستان میں کھیل کے میدان میں بھی مرد اور خواتین شانہ بشانہ چلتے ہیں اور کبھی کبھی تو خواتین ایتھلیٹ مردوں سے بھی آگے نکل جاتی ہیں۔
پاکستان کی کئی ایسی خواتین ایتھلیٹس ہیں جنہوں نے ملک کا نام روشن کیا ہے۔ لیکن عالمی یومِ خواتین پر آپ کو آٹھ ایسی خواتین ایتھلیٹس سے ملواتے ہیں جو اپنے ملک کا نام روشن کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ خواتین دنیا کو بتا رہی ہیں کہ پاکستان میں کھیل کے میدان صرف مردوں تک محدود نہیں بلکہ خواتین بھی اس میں کسی سے پیچھے نہیں۔
بسمہ معروف(کرکٹ)
پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی موجودہ کپتان بسمعہ معروف ان دنوں سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ ویمن ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے میچ کے بعد بسمہ کی بیٹی کے ساتھ بھارتی ٹیم کی کھلاڑیوں کا سیلفی لینے کا منظر ہے۔
بسمہ معروف کے ماں بننے کے بعد کرکٹ میں واپس آنے کے فیصلے کو سب عزت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔اس سے پاکستان کو بھی ایک ترقی پسند ملک کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
پاکستانی کی خواتین ٹیم کی کپتان بسمہ معروف بین الاقوامی کرکٹ میں 200 سے زائد میچز کھیل چکی ہیں جس میں 109 ون ڈے اور 108 ٹی ٹوئنٹی میچز شامل ہیں۔
دونوں فارمیٹ میں ان کی نصف سنچریوں کی تعداد 25 ہے جب کہ ون ڈے کرکٹ میں وہ 44 اور ٹی ٹوئنٹی میں 36 کھلاڑیوں کو واپس پویلین بھیج چکی ہیں۔
ان کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے کئی میچز میں فتوحات حاصل کی ہیں جس میں 2018 میں سری لنکا کے خلاف ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی سیریز قابل ذکر ہیں۔
ندا ڈار(کرکٹ)
پاکستان کی جانب سے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کرکٹ میں سب سے پہلے 100 وکٹیں جس بالر نے حاصل کیں، وہ کوئی مرد نہیں بلکہ ندا ڈار تھیں، انہوں نے سب سے پہلے وہ کارنامہ انجام دیا جو اپنے پورے کریئرمیں مایہ ناز کھلاڑی شاہد آفریدی، عمر گل اور سعید اجمل بھی نہ انجام دے سکے۔
آف اسپنر نے مجموعی طور پر 85 ون ڈے اور 108 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی ہےجس میں انہوں نے مجموعی طور پر 179 وکٹیں حاصل کی ہیں جس میں 103 ٹی ٹوئنٹی اور 76 ون ڈے وکٹیں شامل ہیں۔
اس وقت وہ نیوزی لینڈ میں جاری ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم کا حصہ ہیں، اپنے منفرد ہئیراسٹائل کی وجہ سے وہ لڑکیوں میں کافی مقبول بھی ہیں، جو انہیں دیکھ کر اس فیلڈ میں آنے کی خواہش مند بھی ہیں۔
ڈیانا بیگ(کرکٹ،فٹ بال)
گلگت بلتستان کا علاقہ کرکٹ کے لیے زیادہ مقبول ہو یا نہ ہو، لیکن ڈیانا بیگ کی وجہ سے ضرور مقبول ہوگیا ہے، وہ پاکستان کی واحد ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے کرکٹ کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل لیول پر فٹ بال میں بھی ملک کی نمائندگی کی ہے۔
چھبیس سالہ ایتھلیٹ نے سال2015 میں پہلی بار پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کی اور اب تک اپنی میڈیم پیس بالنگ سے 36 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں 38 اور 28 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں 23 وکٹیں حاصل کرچکی ہیں۔
اس سے قبل وہ سال2014 میں بحرین میں ہونے والی ساؤتھ ایشین فٹ بال فیڈریشن چیمپئن شپ میں پاکستان کی ویمنز فٹ بال ٹیم کی نمائندگی کرچکی تھیں ، انہوں نے ایونٹ میں بطور دفاعی کھلاڑی شرکت کی تھی۔
بعدا زاں جب انہوں نے پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کے لیے کھیلا تو وہ کرکٹ اور فٹ بال دونوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی واحد کھلاڑی بن گئیں۔
نورینہ شمس (سائیکلنگ ،اسکواش)
ڈیانا بیگ نے کرکٹ اور فٹ بال میں جس طرح پاکستان کی نمائندگی کی، اسی طرح لوئر دیر سے تعلق رکھنے والی نورینہ شمس بھی دو کھیلوں اسکواش اور سائیکلنگ میں ملک کی نمائندگی کرچکی ہیں۔یہی نہیں بلکہ انہوں نے ان دونوں کھیلوں کے ساتھ ساتھ لڑکا بن کر کٹ بھی کھیلی ہے۔
چوبیس سالہ نورینہ نے نور الاسلام بن کر لڑکوں کی ٹیم میں ایک سال تک کرکٹ کھیلی، ان کے ساتھی لڑکوں نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کسی نے بھی ان کی اصلیت جاننے کے بعد بھی ان کا مذاق نہ اڑایا۔
البتہ جب ضلعی سطح پر ویمنز ٹیم میں ان کی سلیکشن کی باری آئی تو ان کی والدہ نے منع کردیا، جس کے بعد انہوں نے سائیکلنگ کے ساتھ ساتھ اسکواش کو اپنانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے سال 2008 میں جونیئر اولمپکس میں پاکستان کے لیے سلور میڈل جیتا اور یہ کارنامہ انجام دینے والی جنوبی ایشیا کی کم عمر ترین سائیکلسٹ بن گئیں۔
اس کے بعد انہوں نے اسکواش کا رخ کیا اور صرف تین سال میں ہی ان کا شمار پاکستان کی ٹاپ اور ایشیا کے ٹاپ چالیس خواتین اسکواش کھلاڑیوں میں ہونے لگا۔
ماحور شہزاد (بیڈمنٹن)
بیڈمنٹن کے کھیل میں پاکستان کی اولمپک لیول پر نمائندگی کرنے کا اعزاز سب سے پہلے ماحور شہزاد کو حاصل ہوا، جنہوں نے گزشتہ سال ٹوکیو میں ہونےوالے اولمپک گیمز میں حصہ لیا۔ وہ اس وقت بیڈ منٹن میں پاکستان کی نمبر ون سنگلز پلیئر ہونے کے ساتھ ساتھ اب تک اولمپک میں شرکت کرنے والی واحد پاکستانی شٹلر ہیں۔
انہیں میگا ایونٹ میں شرکت کے لیے وائلڈ کارڈ انٹری ضرور ملی لیکن وہ کئی برسوں سے پاکستان کی انٹرنیشنل مقابلوں میں نمائندگی کررہی ہیں، 2014 کے ایشین گیمز ہوں، 2018 کے کامن ویلتھ گیمز یا پھر 2021 میں ہونے والے اولمپکس، ان کا شمار پاکستان کی بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔
نیشنل لیول پر لاتعداد فتوحات سمیٹنے والی ماحور شہزاد کی اس وقت انٹرنیشنل رینکنگ بھی بری نہیں، سنگلز میں ان کا نمبر 164 واں اور ڈبلز میں 216 واں ہے۔ ان کی کریئر کی اب تک کی بہترین رینکنگ 133 تھی جو انہوں نے سال 2020 میں حاصل کی تھی۔
پلوشہ بشیر(بیڈمنٹن)
کسی بھی کھیل میں مسلسل کامیاب رہنا ہر ایتھلیٹ کا خواب ہوتا ہے اورکراچی سے تعلق رکھنے والی پلوشہ بشیر آٹھ سال پاکستان کی قومی سنگلز چیمپئن رہ کر یہ خواب پورا کرچکی ہیں۔
سن 2010 میں ڈھاکہ میں ہونے والے ایشین گیمز میں کانسی کا تمغہ جیتنے والی اس شٹلر نے 2014 کے ایشین گیمز،2014 اور 2018 کے کامن ویلتھ گیمز میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی ہے، اور حال ہی میں ایک بار پھر نیشنل ڈبلز چیمپئن ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔
اس وقت وہ پاکستان کی ٹاپ ڈبلز کھلاڑی تو ہیں ہی، سنگلز اور ڈبلز دونوں کی انٹرنیشنل رینکنگ میں بھی وہ ٹاپ 250 کھلاڑیوں میں شامل ہیں، سنگلز میں ان کی رینکنگ 229 اور ڈبلز میں 216 ہے۔
سارہ محبوب خان (ٹینس)
پاکستانی ٹینس اسٹار سارہ محبوب خان کا شمار پاکستان کے ٹاپ ٹینس کھلاڑیوں میں ہوتا ہے، 2004 میں صرف 14 سال کی عمر میں پاکستان کی قومی ٹینس چیمپئن شپ جیت کر انہوں نے نہ صرف سب کو حیران کیا، بلکہ سب سے کم عمر چیمپئن ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
وہ فیڈ کپ اور آئی ٹی ایف ٹورنامنٹ سمیت کئی انٹرنیشنل ایونٹس میں پاکستان کی نمائندگی کرچکی ہیں ، کسی بھی آئی ٹی ایف ٹورنامنٹ کے کوارٹر فائنل میں پہنچنے والی وہ پہلی پاکستانی خاتون کھلاڑی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امریکہ کی یونی ورسٹی آف نیو میکسیکو اور ورجینیا کی جیمز میڈیسن یونی ورسٹی کی نمائندگی بھی کرچکی ہیں۔
وہ کلےہو ، گھاس یا ہارڈ کورٹ ہر سطح پر کھیلنے کی مہارت رکھتی ہیں۔گزشتہ سال کے آغاز میں انہوں نے شادی کی وجہ سے کھیل سے بریک لیا تھا۔ البتہ سال کے آخر میں انہوں نے واپس کورٹ کا رخ کیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ نیشنل ٹی وی پر بھی ٹینس کے پروگرام 'بیک ہینڈ' کی میزبانی بھی کرتی ہیں۔
کلثوم ہزارہ (مارشل آرٹس)
پاکستا ن میں کراٹے کےکھیل کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو دیگر اولمپک کھیلوں کو ملتی ہے، لیکن ان سب کے باوجود کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی کلثوم ہزارہ نے انٹرنیشنل مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی، اور میڈل بھی جیتے۔
اپنے والدین کے انتقال کے بعد کلثوم کوئٹہ سے کراچی منتقل ہوگئیں، جہاں انہوں نےکراٹے کے شوق کو کھیل میں بدل دیا۔
سال 2005 میں ایران کے شہر تہران میں ہونے والے چوتھے اسلامی ویمنز گیمز میں انہوں نے پہلی بار پاکستان کی نمائندگی کی ، لیکن خالی ہاتھ لوٹیں، مگر پھر پانچ سال کی محنت کے بعد ڈھاکہ میں ہونے والے ساؤتھ ایشین گیمز میں انہو ں نے ایک نہیں دو کانسی کے تمغے جیتے۔
نیشنل اور انٹرنیشنل لیول پر ان کی کامیابیوں کا سلسلہ تب سے جاری ہے، اور ان کو دیکھ کرکئی لڑکیاں مارشل آرٹس کی فیلڈ میں آرہی ہیں۔اس وقت وہ کراچی یونی ورسٹی سے فزیکل ایجوکیشن میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو کراٹے بھی سکھارہی ہیں۔