پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے کے بعد سے سیاسی ہلچل میں تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے کئی محاذوں کا سامنا ہے جس میں اتحادی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے ناراض اراکین کو ساتھ رکھنا بھی آسان معرکہ دکھائی نہیں دیتا۔
حکومت ناراضی کا اظہار کرنے والی اپنی اتحادی جماعتوں کو منانے میں لگی ہے تو حزب اختلاف بھی حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کرکے انہیں تحریک عدم اعتماد کی حمایت کرنے پر قائل کرنے کی کوشش میں ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم پہلی بار اپوزیشن کی جانب سب سے بڑے امتحان کا سامنا ہے اور تحریک عدم اعتماد کے آنے کے بعد سے حکومت پیچھلے قدموں پر دکھائی دیتی ہے۔
عدم اعتماد کی ناکامی کے لیے عمران خان کے سیاسی امکانات کیا ہیں
اب تک کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے پاس سیاسی امکانات کیا ہیں؟ اس بارے میں تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ حکومت کے قانونی اور پارلیمانی امکانات محدود ہیں۔ تاہم، وہ اتحادی جماعتوں کی حمایت برقرار رکھنے کے لیے کافی کچھ پیش کرسکتی ہے۔
ڈان اخبار سے وابستہ پالیمانی امور کے صحافی عامر وسیم کہتے ہیں حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کی حمایت برقرار رکھ کر تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنا سکتی ہے۔ ان کے بقول حکومت کے پاس اتحادیوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ اتحادی جماعتیں حکومت سے زیادہ خوش نہیں ہیں لیکن صورت حال ایسی ہے کہ مسلم لیگ ق اور متحدہ قومی موومنٹ کو صوبائی وزارت اعلیٰ اور گورنر شپ کی پیشکش حکومت کا ساتھ برقرار رکھنے پر قائل کرسکتی ہے۔
عامر وسیم نے کہا کہ مسلم لیگ ق کے پرویز الہی نے حزب اختلاف کی طرف سے وزارت اعلیٰ کی پیش کش کا جواب نہیں دیا۔ تاہم، حکومتی جماعت کے ناراض اراکین کے جہانگیر ترین گروپ کی جانب سے عثمان بزدار کو ہٹانے کے مطالبے کے بعد وہ خود کو بطور امیداور سامنے لائے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین اور علیم خان پنجاب میں تو عددی اعتبار سے اہمیت رکھتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ یہ ناراض اراکین قومی اسمبلی میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ضروری ہوگا کہ حکومت کی کم از کم دو اہم اتحادی جماعتیں حزب اختلاف کی حمایت کا اعلان کریں۔
کیا حکومت عدم اعتماد کے عمل میں تاخیر کرسکتی ہے
سینیٹر شہادت اعوان نے کہا کہ حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے بعد 21 دن کے اندر رائے شماری کروانا ہو گی اور قومی اسمبلی ہال کی تزئین و آرائش یا اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا اجلاس اس میں تاخیر کی وجہ نہیں بن سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ آئین میں یہ نہیں کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ قومی اسمبلی ہال میں ہی ہوگی بلکہ یہ کسی اور مقام پر بھی ہوسکتی ہے۔
سینیٹر شہادت اعوان کہتے ہیں کہ ان کی جماعت پیپلز پارٹی کی کوشش رہی ہے کہ جمہوریت غیر مستحکم نہ ہو اور اسی بنا پر پیپلز پارٹی کو ایک موقع پر حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔
پارلیمانی آپشن پر گفتگو کرتے ہوئے عامر وسیم کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے کے بعد حکومت کے پاس محدود امکانات ہیں اور وہ اس تحریک پر رائے شماری کو زیادہ سے زیادہ 29 مارچ تک تاخیر میں ڈال سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس اس وقت ہی بلائے گی جب اسے یقین ہوگا کہ اتحادی جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی ہیں اور عقل مندی کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اجلاس اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد بلایا جائے۔
عامر وسیم نے کہا کہ ماضی میں اتحادی جماعتیں مقتدر قوتوں کے کہنے پر فیصلے لیتی رہی ہیں اور اگر اس بار وہ غیر جانبدار رہتے ہیں تو یہ سیاسی جماعتیں رائے شماری کے دن یا اس سے کچھ پہلے ہی اپنا فیصلہ سنائیں گی۔
حکومت کی حکمت عملی پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر پارلیمانی امور بابر اعوان کی جانب سے یہ کہنا کہ رائے شماری کے دن حکومتی اراکین ایوان میں نہیں جائیں گئے، یہ اپنے اراکین پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومتی اتحادی جماعتیں تحریک عدم اعتماد کی حمایت کا اعلان کر دیتی ہیں تو رائے شماری کی نوبت نہیں آئے گی اور وزیر اعظم مستعفی ہوجائیں گے۔
حکومت کے قانونی و پارلیمانی آپشن کیا ہوسکتے ہیں؟
قانونی ماہر سینیٹر شہادت اعوان کہتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کے عمل کو آئین میں واضع انداز میں بیان کیا گیا ہے اور حکومت آئین کی کسی شق کی بنیاد پر اسے التوا میں نہیں ڈال سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت کسی رکن کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے سے پہلے نااہل قرار دینا آئینی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی رکن اسمبلی جماعت کے سربراہ کے فیصلے کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو اسے نااہلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اگر کوئی رکن نااہلی کا سامنا کرنا چاہتا ہے تو اسپیکر اسے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے سے نہیں روک سکتا ہے۔
سینیٹر شہادت اعوان کہتے ہیں کہ آئین کے مطابق اگر کوئی رکن عدم اعتماد کی تحریک میں جماعت کے فیصلے کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اس پر پارٹی سربراہ کو اسے اظہار وجوہ کا نوٹس بجھوانا ہوگا جس کے بعد اسپیکر کو خط لکھا جائے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ اسپیکر بھی خود سے رکن اسمبلی کو نااہل قرار نہیں دے سکتا بلکہ اسے چیف الیکشن کمشنر کو لکھنا ہوگا جو کہ 30 دن میں اس پر فیصلہ دینے کے پابند ہیں۔
حکومت کے قانونی امکانات پر بات کرتے ہوئے عامر وسیم نے کہا کہ حکومت کے پاس کوئی ایسا آپشن موجود نہیں جس سے وہ تحریک عدم اعتماد کو رائے شماری کے بغیر مسترد یا زیادہ دیر التوا میں ڈال سکے۔
سینیٹر شہادت اعوان کہتے ہیں کہ حکومت چاہتی ہے کہ کوئی ایسا قانونی یا تکنیکی نکتہ نکالا جائے جیسا کہ انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت ووٹ مسترد کرکے حزب اختلاف کو ناکام بنا دیا تھا۔
شہادت اعوان نے کہا کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں آئین بہت واضح ہے اور ایوان جب تقسیم ہوگا اور 172 لوگ اگر تحریک کے حق میں ووٹ دے دیتے ہیں تو کسی قانونی تشریح کے بغیر عمران خان نااہل ہوچکے ہوں گے۔