صدرِ پاکستان کے وکیل کے دلائل مکمل، سماعت کے دوران جونیجو کیس کی بازگشت
از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دورانِ صدرِ پاکستان کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا اور کہا کہ جونیجو کی حکومت کو بھی ختم کیا گیا تھا جسے عدالت نے غیر آئینی قرار دیا لیکن عدالت نے اسمبلی کے خاتمے کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا۔
اس موقع پر جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، اسمبلی میں عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی اس معاملے پر بات کریں۔ وکیل علی ظفر نے مؤقف اپنایا یہاں بھی اسمبلی تحلیل کر کے الیکشن کا اعلان کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے وکیل علی ظفر کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے؟
وکیل علی ظفر نے کہا "میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں، الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا۔"
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیرِ اعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی سوال کیا کہ اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آؤٹ ہو جائے تو کیا ہوگا؟ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ وہ بطور صدرِ پاکستان کے وکیل سیاسی معاملے کا جواب نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
ڈپٹی اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کی سپریم کورٹ میں سماعت شروع
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سرہراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ڈپٹی اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر صدرِ پاکستان عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل کا آغاز کیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وزیرِ اعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ اس پر وکیل نے کہا کہ بلاشبہ وہ عوام کے نمائندے ہیں۔
جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں؟ اس پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے۔
صدرِ پاکستان کے وکیل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحفظ کے لیے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟ اس پر وکیل علی ظفر نے نکتہ اٹھایا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔
چیف جسٹس نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟ اس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیرِ اعظم کون ہوگا؟ جس پر صدرِ پاکستان کے وکیل نے مؤقف اپنایا وزیرِ اعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔
چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا "علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا ہے وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لکیر کھیچنا پڑے گے۔
آج کا دن پاکستان کے مستقبل کا تعین کرے گا: سلیم صافی
صحافی سلیم صافی نے سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت کیس سے متعلق اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ آج پاکستان کی سیاسی تاریخ کا اہم ترین ہے جو مستقبل کا تعین کرے گا۔ ان کے بقول آج پتا چلے گا کہ اس ملک میں آئین کی حکمرانی ہے یا پھر مصلحتوں، سازباز اور نظریہ ضرورت کی؟
سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کی دوبارہ سماعت ہوگی
سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی آج دوبارہ سماعت ہو گی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ سماعت کرے گا۔
آج کی سماعت کے دوران قومی اسمبلی کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کے وکلا دلائل دیں گے۔