رسائی کے لنکس

Shehbaz Sharif
Shehbaz Sharif

کسی کو ڈکٹیشن دینے کی ضرورت نہیں، الیکشن کب ہوں گے یہ فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے: شہباز شریف

16:23 29.3.2022

رات کو 12 بجے (ق) لیگ والے مجھے مبارک دینے آئے اور صبح حکومت سے مل گئے: آصف زرداری

سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ اُن کے مسلم لیگ (ق) کے ساتھ معاملات طے پا گئے تھے۔ وہ رات کو 12 بجے مجھے مبارک باد دینے آئے، لیکن نجانے کیا ہوا کہ وہ صبح حکومت سے مل گئے۔

اسلام آباد میں اپوزیشن رہنماؤں کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ سیاسی لوگوں سے رابطہ رہتا ہے اور (ق) لیگ سے بھی ہمارے رابطے تھے۔

اُن کے بقول اب یہ (ق) لیگ والے ہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ معاملات طے کرنے کے بعد وہ حکومت کے ساتھ کیوں گئے۔

آصف زرداری کا کہنا تھا کہ پنجاب میں نمبر گیم اپوزیشن کے پاس ہے اور ہم مل کر پنجاب میں وزیرِ اعلٰی نامزد کریں گے اور وہی کامیاب ہو گا۔

سابق صدر نے دعویٰ کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے متعلق بھی اچھی خبر ملی گی۔

16:29 29.3.2022

تحریکِ عدم اعتماد پر نمبرز گیم کیا ہے؟

قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سیاسی ملاقاتوں کے سلسلے میں تیزی آ گئی ہے جہاں حکومت اپنی برتری ظاہر کرنے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے تو وہیں اپوزیشن بھی حکومت کے اتحادیوں کو ساتھ ملانے میں مصروف ہیں۔

پنجاب اسمبلی میں پیر کو وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش ہوئی تو انہوں نے وزیرِ اعظم عمران خان استعفیٰ پیش کر دیا۔ اُس کے بعد مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الہی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کی پیشکش نے ملک کے سیاسی منظر نامے میں بہت کچھ تبدیل کر دیا ہے۔

اب تک تحریک انصاف کی اتحادی حکومت میں شامل بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ارکانِ قومی اسمبلی نے اپوزیشن میں شمولیت کا اعلان کیا ہے جب کہ جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی پہلے ہی اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔

قومی اسمبلی میں پانچ سیٹیں رکھنے والی مسلم لیگ (ق)، جو اپوزیشن کے بہت قریب تھی اب دور ہو چکی ہے۔ پرویز الٰہی کا وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنے کے بعد پارٹی میں اندرونی اختلاف کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔

مسلم لیگ (ق) کے رکنِ قومی اسمبلی طارق بشیر چیمہ نے کابینہ سے مستعفیٰ ہوتے ہوئے تحریکِ عدم اعتماد میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف ووٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔

تحریکِ عدم اعتماد میں کون کامیاب ہوتا ہے اس کا بہت حد تک دار و مدار ناراض حکومتی اراکین اور متحدہ قومی موومنٹ پر ہے۔

ایم کیو ایم کی قومی اسمبلی میں سات نشتیں ہیں اور اس نے حکومت اور اپوزیشن کے سامنے مطالبات رکھے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایم کیو ایم کے تین مطالبات میں لاپتا کارکنوں کی بازیابی، جھوٹے مقدمات کا خاتمہ اور بند دفاتر کھولنے کی اجازت شامل ہے۔

قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے متحدہ اپوزیشن کم سے کم 172 اراکین کی حمایت حاصل کرنی ہے۔

تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل قومی اسمبلی میں پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت میں حکومتی اراکین کی مجموعی تعداد 179 تھی جب کہ متحدہ اپوزیشن کے 163 ارکان تھے۔

بعض اراکین اور جماعتوں کی حمایت کے اعلان کے بعد حزبِ اختلاف کی پوزیشن بہتر ہو گئی ہے۔

سات اراکین کی شمولیت کے بعد اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ ان کے ارکان کی تعداد 169 ہو گئی ہے۔حکومتی اتحاد کے نمبر اب 179 سے کم ہو کر 172 ہو گئے ہیں۔

اس صورتِ حال میں ایم کیو ایم کے سات اراکین اور تحریکِ انصاف کے منحرف اراکین کا ووٹ فیصلہ کن کردار ادا سکتا ہے۔

18:58 29.3.2022

مسلم لیگ (ن) کا وزیرِ اعظم کو ملنے والا 'دھمکی آمیز' خط پارلیمنٹ میں لانے کا مطالبہ

سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اگر دھمکی آمیز خط سے متعلق وزیرِ اعظم سچ بول رہے ہیں تو اس خط کو پارلیمنٹ میں لائیں۔

اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے ہمارے ملک کو دھمکی دی ہے تو سب نے مل کر اس کا جواب دینا ہے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اگر وہ خط سپریم کورٹ کے جج کو بھی دکھایا جا سکتا ہے تو 23 کروڑ پاکستانیوں کی نمائندہ پارلیمنٹ کو یہ خط کیوں نہیں دکھایا جا سکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جس ملک کی جانب سے بھی یہ دھمکی آمیز خط لکھا گیا ہے اس ملک کے سفیر کو فوری طور پر بے دخل کیا جائے۔

شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وفاقی وزرا نے اس شخص پر الزام لگایا ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔

خیال رہے کہ وفاقی وزرا نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ وزیرِ اعظم عمران خان کو دھمکی آمیز خط میں اہم کردار سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کا بھی ہے۔


04:00 30.3.2022

ایم کیو ایم کا اپوزیشن کے ساتھ معاہدہ طے، " متحدہ کو سوچ سمجھ کر ایسا حساس فیصلہ کرنا چاہیے"

پاکستان تحریک انصاف حکومت کی اہم اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کے لیے حزب اختلاف کے اتحاد کے ساتھ معاہدے کو حتمی شکل دے دی ہے۔

اس معاہدے کو ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی منظوری سے مشروط کیا گیا ہے۔

شہباز شریف نے وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کے سوال پر کہا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ معاہدہ طے پا جانے پر وہ خوش ہیں اور کل تک اس کا باضابطہ اعلان کردیا جائے گا۔

ایم کیو ایم کے سینٹر فیصل سبزواری کے مطابق معاہدے کا باضابطہ اعلان بدھ کی شام چار بجے کیا جائے گا۔

اس کے نتیجے میں ایم کیو ایم حکومتی اتحاد سے علیحدہ ہوجائے گی اور وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم پر حزب اختلاف کی حمایت کرے گی۔

ایم کیو ایم کے قومی اسمبلی میں سات اراکین ہیں جن کی حمایت ختم ہونے سے تحریک انصاف کی حکومت عددی اکثریت کھو بیٹھے گی۔

ایم کیو ایم کی حمایت ملنے کی صورت میں حزب اختلاف کی قومی اسمبلی میں عددی تعداد 177 تک پہنچ جائے گی جو کہ عدم اعتماد کے لیے درکار 172 کا ضروری ہندسہ پورا کرتی ہے۔

منگل کو رات گئے حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، سردار اختر مینگل، بلاول بھٹو اور خالد مگسی ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے پاس پہنچے اور کئی گھنٹے تک بات چیت کے بعد معاہدے کو حتمی شکل دی گئی۔

ایم کیو ایم کے سربراہ خالد مقبول صدیقی، عامر خان، امین الحق، وسیم اختر، فیصل سبزواری، خواجہ اظہار اور دیگر رہنماؤں نے متحدہ اپوزیشن کے قائدین کے ساتھ اپنے مطالبات پر بات چیت کی۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ معاملات طے ہو چکے ہیں اور ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا اپنی جماعتوں کو اعتماد میں لینا ان کا حق بنتا ہے۔

ایم کیو ایم کے سینئر رہنما فیصل سبزواری نے متحدہ اپوزیشن کے قائدین سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ معاہدہ وزارتوں کے حصول کے لیے نہیں بلکہ سندھ کی شہری آبادیوں کے حقوق کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد سے ملک میں سیاسی غیر یقینی میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

مسلم لیگ ق حکومت کے ساتھ رہنے اور بلوچستان عوامی پارٹی حزب اختلاف کی حمایت کرنے کا اعلان کر چکی ہیں۔

ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کے وفاقی وزراء امین الحق اور فروغ نسیم بدھ کی سہہ پہر اپنی وزارتوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔

حزب اختلاف کے ساتھ معاہدہ طے پا جانے کے بعد حکومتی وفد بھی ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے پاس پارلیمنٹ لاجز پہنچا۔

وفاقی وزیر پرویز خٹک اور گورنر سندھ عمران اسماعیل نے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماؤں کو حکومت کی حمایت قائم رکھنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔

ملاقات کے بعد عمران اسماعیل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا اتحاد غیر فطری ہے اور متحدہ کو سوچ سمجھ کر ایسا حساس فیصلہ کرنا چاہیے۔

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG