امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یوکرین میں زچہ و بچہ کے اسپتال پر بمباری جیسے واقعات سامنے آنے کے بعد اپنے روسی ہم منصب پوٹن کو ’جنگی جرائم کا مرتکب‘ قرار دیا ہے۔
تاہم بین الاقوامی قوانین میں کسی کو جنگی جرائم کا ذمے دار قرار دینے کے لیے قانونی تعریف، طریقۂ کار اور سزائیں متعین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وائٹ ہاؤس اپنے بیانات میں پوٹن کے لیے اس اصطلاح کے استعمال سے گریز کر رہا ہے۔
بائیڈن کے پوٹن کے لیے اس اصطلاح کے استعمال کے بعد وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری جین ساکی نے کہا ہے کہ صدر دل سے یہ بات کہہ رہے تھے۔
ترجمان ںے اس بیان کا اعادہ کیا ہے کہ متعین طریقۂ کار پر عمل کے بعد ہی کسی کو باقاعدہ جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا جاسکتا ہے۔
تحقیقات کا آغاز
ڈیوڈ کرین کئی دہائیوں سے جنگی جرائم پر کام کررہے ہیں اور اقوامِ متحدہ کی ایک خصوصی عدالت میں چیف پراسیکیوٹر بھی رہے ہیں۔
خبر رساں دارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ واضح طور پر پوٹن جنگی مجرم ہیں، البتہ صدر بائیڈن کے بیان کو سیاسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
ڈیوڈ کرین اب گلوبل اکاؤنٹبلٹی نیٹ ورک کے سربراہ ہیں جو بین الاقوامی فوجداری عدالت اور اقوامِ متحدہ کے لیے بھی کام کرتا ہے۔یوکرین پر روس کے حملے کے پہلے دن ہی ان کے نیٹ ورک نے لڑائی کے دوران جنگی جرائم سے متعلق معلومات مرتب کرنا شروع کردی تھیں۔ وہ پوٹن کے خلاف فرد جرم کا ایک مسودہ بھی تیار کررہے ہیں۔
یوکرین میں پوٹن کے اقدامات سے متعلق پہلے ہی تحقیقات کا آغاز ہوچکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کی قرارد منظور ہونے کے بعد امریکہ سمیت 44 ممالک یوکرین میں اس کی ممکنہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات شروع کرچکے ہیں۔
اس کے علاوہ نیدرلینڈ میں قائم ایک آزاد ادارے بین الاقوامی فوجداری عدالت نے بھی یوکرین میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
ڈیوڈ کرین یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ صدر پوٹن پر ایک برس کے اندر فرد جرم عائد ہوسکتی ہے۔
جنگی جرائم سے متعلق ضابطے
مسلح تنازعات میں عالمی سطح پر متعین قواعد کی خلاف ورزی پر جنگی جرائم کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان قواعد و ضوابط میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ جنگ کے دوران ممالک کو کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد جنیوا کنونشن کے تحت یہ قواعد متعین کیے گئے تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں بھی آتی رہی ہیں۔
ان ضابطوں کا مقصد ان افراد کا تحفظ کرنا ہے جو لڑائی میں براہِ راست ملوث نہ ہوں جن میں عام شہری، ڈاکٹرز اور نرسز وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ قواعد لڑائی سے دستبردار ہونے والوں اور زخمی ہونے یا قیدی بننے کی وجہ سے لڑائی کے قابل نہ رہنے والے افراد کو بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر معاہدوں اور پروٹوکولز میں مسلح تنازعات میں ہتھیاروں کے استعمال کی حدود کا بھی تعین کیا گیا ہے۔ ان میں کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں سمیت مسلح تنازع میں جنگی آلات کے استعمال سے متعلق ضابطے موجود ہیں۔
جان بوجھ کر قتل و غارت اور کسی عسکری ضرورت کے بغیر املاک کی تباہی یا ان پر قبضہ جمانے جیسے اقدامات ان ضوابط کی ’سنگین خلاف ورزی‘ تصور ہوتے ہیں۔ انہیں جنگی جرائم قرار دیا جا سکتا ہے۔ جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنانا، طاقت کے غیر متناسب استعمال اور انسانوں کو قیدی اور ڈھال بنانے جیسے اقدامات بھی جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت ’ شہری آبادی پر بڑے یا منظم حملے‘ کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے تناظر میں دیکھتی ہے اور اس کے خلاف کارروائی کرتی ہے۔ ایسے بڑے حملوں میں ہونے والی قتل و غارت، املاک کو تباہ کرنا، نقل مکانی پر مجبور کرنا، تشدد، ریپ جیسی کارروائیوں کے خلاف بھی جنگی جرائم کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق پوٹن قانونی طور پر احکامات دینے کی ذمے داری کے تصور کے تحت جنگی جرائم کے دائرے میں آسکتے ہیں۔
احکامات کی ذمے داری اس صورت میں عائد ہوتی ہے جب کوئی کمانڈر براہِ راست کسی جرم کا یا تو حکم دے یا اس کے علم میں ایسی کوئی کارروائی آئے اور وہ اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کرے۔ ایسی صورت میں کمانڈر کو قانونی طور پر ذمے دار قرار دیا جاسکتا ہے۔
قانونی کارروائی کس طرح ہوتی ہے؟
عام طور پر جنگی جرائم کے تعین اور تحقیقات کے لیے چار راستے ہیں۔
1۔بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ذریعے سے ایسے جرائم کا تعین ہو سکتا ہے۔
2۔ اقوامِ متحدہ تحقیقاتی کمیشن اور جنگی جرائم کے ٹریبیونل بنا کر پوٹن کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔
3۔ یوکرین میں روس کے اقدامات سے متعلق تحفظات اور تشویش رکھنے والے نیٹو، یورپی یونین میں شامل ممالک اور امریکہ وغیرہ پوٹن کے خلاف مشترکہ ٹریبیونل بنا سکتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی میں نازی رہنماؤں کے خلاف نرمبرگ میں اتحادی ممالک کی مشترکہ عدالتی کارروائی اس کی نظیر فراہم کرتی ہے۔
4۔ بعض ممالک جنگی جرائم سے متعلق اپنے قوانین کے تحت بھی کارروائی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جرمنی پہلے ہی پوٹن کے خلاف جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کر چکا ہے۔ امریکہ میں ایسے قوانین موجود نہیں ہیں البتہ محکمۂ انصاف میں بین الاقوامی سطح پر نسل کشی، تشدد، لڑائی کے لیے کم سن بچوں کی بھرتی اور خواتین کے مخصوص اعضا کو مسخ کرنے جیسے اقدامات کی نگرانی اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے ایک خصوصی شعبہ قائم ہے۔
پوٹن کے خلاف کارروائی کہاں ہو سکتی ہے؟
ظاہر ہے کہ ایسا روس میں ممکن نہیں ہے۔ روس بین الاقوامی فوجداری عدالت کے دائرۂ اختیار کو تسلیم نہیں کرتا اور کسی ملزم کو نیدرلینڈ میں ہیگ کارروائی کے لیے نہیں بھیجے گا۔
امریکہ بھی اس بین الاقوامی عدالت کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتا۔ اقوامِ متحدہ یا مشترکہ کارروائی کرنے والے ممالک پوٹن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے مقام کا تعین کرسکتے ہیں لیکن پوٹن کو وہاں جوابدہی کے لیے لانا مشکل ہوگا۔
ماضی میں حکومتی شخصیات کے خلاف کارروائی
ماضی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد نرمبرگ اور ٹوکیو میں ہونے والے ٹرائلز کے علاوہ حالیہ تاریخ میں بعض ٹربیونلز بوسنیا، کمبوڈیا اور روانڈا میں جنگی جرائم میں ملوث حکومتی شخصیات کے خلاف کارروائی کر چکے ہیں۔
یوگوسلاویا کے سابق رہنما سلوبڈن ملوسویک کے خلاف اقوامِ متحدہ کے ٹربیونل نے کارروائی کی تھی البتہ عدالتی فیصلے سے قبل ہی ان کی موت ہو گئی۔ ان کے بوسنیائی سرب اتحادی ریڈوان کرادزک اور فوجی عہدے دار جنرل راتکو ملادک کے خلاف عدالتی کارروائی تکمیل کو پہنچی اور وہ اب عمر قید کاٹ رہے ہیں۔
لائبریا کے سابق صدر چارلس ٹیلر کو اپنے پڑوسی افریقی ملک سیرا لیون میں مظالم پر 50 سال قید کی سزا ہو چکی ہے۔ چاڈ کے سابق ڈکٹیٹر حسین حبری وہ پہلے سابق سربراہِ مملکت تھے جنہیں افریقی عدالت نے جنگی جرائم میں سزا دی تھی۔
ا(س خبر میں شامل معلومات ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔)