بھارت کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل خریدنے کے لیے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ نئی دہلی کی جانب سے یہ فیصلہ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب مغربی ممالک نے یوکرین پر حملے کے بعد روس پر پابندیا ں عائد کر رکھی ہیں۔
بھارت کے وزیر برائے پیٹرولیم اور قدرتی گیس ہردیپ سنگھ پوری نے رواں ہفتے پارلیمنٹ کو بتایا کہ انہوں نے روس سے خام تیل کی خریداری پر بات چیت کر رہی ہے اور اس سلسلے میں مذاکرات ابھی چل رہے ہیں۔
ہردیپ سنگھ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ حکومت خام تیل کی دستیابی اور ادائیگی جیسے مسائل دیکھ رہی ہے۔
مقامی اخبار' ٹائمز آف انڈیا' کے مطابق بھارت روس سے رعایتی نرخ پر 3.5 ملین بیرل خام تیل خریدنے کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہے۔ اخبار نے اپنی رپورٹ میں اس معاملے پر باخبر رہنے والےافراد کا حوالہ دیا جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔
بھارت دنیا میں تیل درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جو اپنی ضروریات کا 80 فی صد سے زیادہ خام تیل بیرونی دنیا سے حاصل کرتا ہے۔
بھارت کے لیے زیادہ تر سپلائی مشرق وسطیٰ اور امریکہ سے آتی ہے جب کہ اس کی درآمدات کا صرف تین فی صد خام تیل روس سے آتا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ تیل کی درآمد پر بڑی رقم خرچ کرنا پڑے گی اور یہ عمل گزشتہ سال ہونے والی اقتصادی بحالی پر اثر انداز ہوگا۔
اس تناظر میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو سے خام تیل کی خریداری کے لیے بات چیت ظاہر کرتی ہے کہ نئی دہلی روس کے ساتھ تجارت کے دروازے کھلے رکھے گا۔
دوسری طرف روس نے بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ تیل کی برآمدات اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرے۔
اس سلسلے میں گزشتہ جمعہ بات کرتے ہوئےروس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک نے ایک بیان میں کہا تھا کہ روس کی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی بھارت کو برآمدات ایک بلین تک پہنچ گئی ہےجسے مزید بڑھانے کے واضح مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے بھارتی وزیرِ پٹرولیم کو یہ بھی بتایا کہ ماسکو روسی تیل اور گیس کے شعبے میں بھارتی سرمایہ کاری کو مزید بڑھانے اوربھارت میں روسی کمپنیوں کے سیلز نیٹ ورک کو پھیلانے میں دلچسپی رکھتا ہے۔
واشنگٹن میں جب وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی سے پریس بریفنگ میں اس امکان کے بارے میں پوچھا گیا کہ بھارت خام تیل کی رعایتی روسی پیشکش کو قبول کر سکتا ہے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ" کسی بھی ملک کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہم نے جو پابندیاں لگائی ہیں ان کی پابندی کریں۔"
تاہم جین ساکی نے یہ بھی کہا کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ بھارت کی روس سے تیل کی خریداری سے ان پابندیوں کی خلاف ورزی ہو گی۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ روسی قیادت کی حمایت ایک حملے کی حمایت ہے جس کے تباہ کن اثرات ہیں اور جب اس لمحے پر تاریخ لکھی جائے گی تو آپ کہاں کھڑے ہونا چاہیں گے۔
یاد رہے کہ جہاں امریکہ نے روسی تیل کی درآمد پر پابندی عائد کر رکھی ہے وہیں یورپی یونین نے روسی تیل کی خریداری پر پابندی عائد کیے بغیر کچھ روسی کمپنیوں کے خلاف پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
بھارت نے امریکہ اور دیگر مغربی اتحادیوں کے دباؤ کی مزاحمت کرتے ہوئے حال ہی میں اقوامِ متحدہ میں ماسکو کے خلاف ووٹ دینے سےگریز کیا۔ اس ضمن میں تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کی وجہ بھارت کی جانب سے روسی ہتھیاروں پر بہت زیادہ انحصارکرنا ہو سکتا ہے۔
نئی دہلی نے یوکرین میں تشدد کے خاتمے اور بحران کے سفارتی حل پر زور دیا ہے۔ لیکن بھارت کو اس سلسلے میں مؤقف اپناتے ہوئے ایک مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے کیوں کہ وہ واشنگٹن کے ساتھ اپنی بڑھتی ہوئی اسٹرٹیجک شراکت داری کے ساتھ روس کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات میں توازن رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ بھارت کی اس پالیسی کو اس کے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔