وزیرِ ِ اعظم عمران خان کی جانب سے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے چوہدری پرویز الہٰی کو اُمیدوار نامزد کیے جانے کے بعد صوبے کی سیاسی صورتِ حال دلچسپ ہو گئی ہے، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق چوہدری پرویز الہٰی کے لیے وزارتِ اعلٰی کے حصول تک کا سفر آسان نہیں ہو گا۔
پنجاب کی سیاسی صورتِ حال پر غور کے لیے پنجاب کی سیاست کے اہم فریق جہانگیر ترین گروپ نے اپنا اجلاس طلب کر لیا ہے جس کے رہنما علیم خان کے چوہدری پرویز الہٰی سے تعلقات میں تناؤ پایا جاتا ہے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے اگر پرویز الٰہی کو صوبہ پنجاب کا وزیراعلٰی نامزد کر کے اپنا ترپ کا پتا کھیلا ہے تو یہ سیاسی چال اُنہیں نقصان زیادہ اور فائدہ کم دے گی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی منظر نامہ خوفناک ہوتا جا رہا ہے اور حالات کسی ایک جانب جاتے دکھائی نہیں دے رہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ پنجاب میں تحریکِ انصاف کے اندر بہت سے دھڑے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں 10 نشستوں والی مسلم لیگ (ق) کو وزارتِ اعلٰی کی پیش کش کی گئی ہے۔
'پہلے وفاق میں حکومت بچانا چیلنج ہو گا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ آنے والے دِنوں میں صوبہ پنجاب میں سیاسی طور پر گہما گہمی زیادہ ہو سکتی ہے۔ لیکن اِس سے قبل حکمران جماعت پاکستان تحریک اِنصاف کو خود کو وفاق میں بچانا ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت وفاق میں بچے گی تو پنجاب کی باری آئے گی۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو پنجاب میں تبدیلی نہیں ہو گی بلکہ اور تبدیلیاں ہوں گی کیوں کہ نہ بزدار ہوں گے اور نہ ہی پرویز الہٰی ۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری چوہدری پرویز الٰٰہی کو وزیراعلٰی پنجاب نامزد کرنے پر سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں بڑے طاقتور نام موجود ہیں لیکن اِس کے باوجود چھوٹی جماعت کے سربراہ کو وزیراعلٰی بنانے پر حیرت ہے۔ عمران خان وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو وہ کبھی نہ کرنے کا کہتے رہے ہیں۔
جب کہ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چوہدری پرویز اعلیٰ کی بطور وزیر اعلیٰ نامزدگی عمران خان کی ایک بڑی چال ہے جس نے اپوزیشن کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ پرویز الٰہی کا صوبہ پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے لیے نامزد کرنا ایک بڑا بریک تھرو ہے جس کا حکومت کو کسی حد تک فائدہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اِس سے قبل چوہدری پرویز الٰہی کو حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے اپنا اُمیدوار بنایا تھا، لیکن اُنہوں نے مناسب سمجھا کہ وہ حکومتی جماعت کے اُمیدوار بنیں۔
وہ سہیل وڑائچ کی اِس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پنجاب کی باری تو عمران خان کے بعد آئے گی، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جس مقصد کے لیے عمران خان نے پرویز الٰہی صاحب کو نامزد کیا ہے کیا وہ حاصل کر پائیں گے۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگثر حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے ارکان ٹوٹتے ہیں جب کہ پنجاب میں عثمان بزدار کی صورت میں کمزور وزیراعلٰی والا تجزبہ ناکام رہا۔
سلیم بخاری کے بقول عمران خان نے پنجاب کو اسلام آباد سے چلانے کی کوشش کی۔ لہذا پرویز الٰہی کی نامزدگی اُن کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔
اطلاعات کے مطابق پنجاب میں قائدِ ایوان کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کی نامزدگی کے بعد وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے لیے متحرک ہو گئے ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ تحریکِ انصاف کے ناراض ارکان سے رابطہ کریں گے۔ ترجمان عبدالعلیم گروپ خالد محمود کے مطابق پرویز الٰہی نے علیم خان سے رابطہ کیا ہے جس کا سوچ سمجھ کر جواب دیا جائے گا۔
اطلاعات کے مطابق آنے والے دنوں میں پرویز الہٰی ترین گروپ سے رابطہ کریں گے۔
پرویز الٰہی کے ترین اور علیم خان گروپ سے تعلقات
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی بتاتے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی یہ دعوٰی کر رہے ہیں کہ ترین گروپ اُن کے ساتھ ہے۔ جن میں دو درجن کے قریب ارکانِ صوبائی اسمبلی ہیں۔ جو آپس میں رابطہ کر رہے ہیں کہ عثمان بزادر کی تبدیلی کی صورت میں اگلا وزیراعلٰی پی ٹی آئی سے ہونا چاہیے۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اصل گروپ ترین گروپ ہے۔ جن کے پاس دو درجن کے قریب ارکان اسمبلی ہیں جو مائنس بزدار پر اکٹھے ہوئے تھے جب کہ دوسری جانب علیم خان ہیں جو آج تک اپنے کسی رکن کو سامنے نہیں لا سکے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ترین گروپ اور علیم گروپ پرویز الٰہی کو بطور وزیراعلٰی پنجاب قبول نہیں کریں گے۔ اُن کی رائے میں دونوں گروپوں کے ایک دو گروپ انفرادی طور پر پرویزالٰہی کا ساتھ دے سکتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر ایسا نہیں ہو گا۔
سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ اگرچہ پرویز الٰہی اور علیم خان ایک حکومت میں اکٹھے بھی تھے لیکن اِن دنوں کے پرانے سیاسی اختلافات ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔
سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ علیم خان سمجھتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کے لیے اُن کی بڑی قربانیاں ہیں اور وہ وزیرِ اعلٰی پنجاب کے عہدے کے حق دار ہیں۔ لہذٰا پہلے عثمان بزدار اور اب پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلٰی نامزد کرنا علیم خان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہو گا۔
البتہ سلیم بخاری کا خیال ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ چوہدری پرویز الہٰی ترین گروپ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ اگر پرویز الہٰی پنجاب کے وزیرِ اعلٰی بن گئے تو وہ تحریکِ انصاف کے اراکین کو توڑ نے کی کوشش کریں گے اور وہ تحریکِ انصاف کے لیے کام نہیں کریں گے۔
سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ اُن کی اطلاعات کے مطابق تحریکِ انصاف کے لوگ آپس میں رابطے میں ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ آخر کیا وجہ ہے پہلے عثمان بزدار مسلط کر دیا گیا اور اَب ایک دوسری جماعت کے رکن کو وزیراعلٰی نامزد کر دیا گیا ہے۔