رسائی کے لنکس

افغانستان میں صحافیوں کی گرفتاریاں، طالبان سے فوری رہائی کا مطالبہ


افغان میڈیا (فائل فوٹو)
افغان میڈیا (فائل فوٹو)

افغانستان میں مقامی میڈیا پر نظر رکھنے والے نگراں اداروں اور اقوام متحدہ نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان میں مقامی صحافیوں کو من مانی اور یکطرفہ حراست میں لینے کا سلسلہ بند کرے ۔

افغان صحافیوں کی حفاظت پر مامور کمیٹی، 'اے جے ایس سی' نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ طالبان نے بدھ کو وسطی صوبہ غور میں ان کے صوبائی نمائندے کو ایک اور صحافی کے ساتھ گرفتار کرلیا ہے۔

اے جے ایس سی کے بیان کے مطابق مقامی صحافی کو دو گھنٹے بعد رہا کردیا گیا لیکن کمیٹی کے صوبائی نمائندے غلام ربانی ہدف مند تاحال طالبان کی حراست میں ہیں۔ بیان میں طالبان سے ہدف مند کو رہا کرنے اور قانون کی دفعات کی بنیاد پر وضاحتوں کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جمعرات کو ایک ٹویٹ میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سےصحافیوں اورمیڈیا کارکنوں کو یک طرفہ طور پر حراست میں لیا جاتا ہےاور انہیں قید تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ طالبان کے اس رویّے میں لچک یا نرمی کے کوئی آثار بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے امدادی مشن انے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ میڈیا کو دھمکانا بند کریں۔

یواین مشن نے کہا کہ افغان صحافی بسمہ اللہ وطن دوست کو طالبان نے دس دن تک حرست میں رکھنے کے بعد رہا کیا۔ انھیں پانچ دیگر صحافیوں کے ہمراہ جنوبی شہر قندھار سے اٹھائیس مارچ کو چار ریڈیو اسٹیشن پر چھاپوں کے دوران گرفتار کیاگیا تھا۔

ایک افغان صحافی اور جنوبی صوبہ خوست میں داسولے پائیگام ریڈیو کے منجنگ ایڈیٹر ظاہر شاہ انگار نے کہا کہ صحافیوں کی حراست اور ان کے خلاف مسلسل تشدد صحافیوں کے لیے موجودہ چیلنج والے ماحول کو مزید مشکل بنارہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ میڈیا کی مدد کرنے والے اداروں کے ساتھ ایک اجلاس میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بار بار کہا تھاکہ وہ آزادی اظہار رائے کے لیے پرعزم ہیں اور مستقبل میں صحافیوں کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے 31 مارچ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں میڈیا کریک ڈاون میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آئی ایف جے کا کہنا تھا کہ افغانستان میں چھبیس سے اٹھائیس مارچ تک کم از کم 8 میڈیا ورکر گرفتار ہوئے اور دو ریڈیو اسٹیشن بندکردیے گئے۔

ایک بیان میں آئی ایف جے نے طالبان سے تمام زیر حراست میڈیا کارکنوں کی فوری رہائی اور طالبان کی میڈیا پر نئی پابندیوں سے متاثر ہونے والے تمام میڈیا اداروں کی بحالی کا مطالبہ کیا ہے۔

افغانستان فیڈریشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا کے مطابق مارچ کے دوران پورے افغانستان میں21 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔

رپورٹر ود آوٹ بارڈر ز ، آر ایس ایف نے چار فروری کو ایک بیان میں افغانستان میں صحافیوں کو دھمکیوں اور پوچھ گچھ کے لیے سمن اور من مانی گرفتاریوں میں اضافے کی رپورٹ دی ہے۔

طالبان نے صحافیوں کی حالیہ گرفتاریوں کے بارے میں وی او اے کےاستفسار کا کوئی جواب نہیں دیا۔

افغانستان کی وکلا یونین کے سابق نائب سربراہ عبدالسبحان مصباح نے وی او اے کو بتایا کہ صحافیوں کی یہ گرفتاریاں غیر قانونی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف زیادتی کے ہتھکنڈوں سے نمٹنے کے لیے میڈیا کمیشن موجود ہے۔ اگر کمیشن مقدمہ طے نہ کرسکے تو پھر عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ گرفتاریاں قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔

نومبر میں جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں آئی ایف جے نے کہا تھا کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے پہلے تین مہینوں میں افغانستان میں کم از کم سات صحافی مارے گئے ہیں۔پریس ریلیز میں کہا گیاہے کہ بہت سی اور بھی مشکلات ہیں جن میں بڑھتی ہوئی دھمکیاں، ہراساں کیا جانا اور تشدد شامل ہے۔

آر ایس ایف کی جانب سے دسمبر دو ہزار اکیس میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق تقریباً چالیس فیصد افغان میڈیا بند ہوچکا ہے اور ساٹھ فیصد افغان صحافی اور میڈیا ملازمین، جن میں اسی فیصد سے زیادہ خواتین شامل ہیں، اب کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

طالبان نے وائس آف امریکہ، بی بی سی اور ڈوئچے ویلے سمیت بین الااقوامی نشریاتی اداروں پر بھی پابندی عائد کررکھی ہے۔

آئی ایف جے نے بین الاقوامی اداروں پر طالبان کی پابندی کو افغانستان میں آزادی صحافت اور معلومات تک عوام کی رسائی کے حقوق کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔

XS
SM
MD
LG