رسائی کے لنکس

رپورٹرز ڈائری: ’پنجاب اسمبلی میں اتنی بڑی تعداد میں لوٹے آئے کہاں سے؟‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیرِ اعظم شہباز شریف کے صاحب زادے حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں نئے قائدِ ایوان منتخب ہو چکے ہیں۔ جن کی حلف برداری کی تقریب اتوار کی شام متوقع تھی تاہم گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے یہ مؤخر کر دی ہے۔

ہفتہ کے روز پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہوا جہاں ارکانِ اسمبلی سے زیادہ پولیس اہل کار تھے۔ بڑی تعداد میں پولیس اہل کار سادہ کپڑوں میں بھی تعینات تھے جب کہ پنجاب رینجرز کے اہل کار اِس کے علاوہ تھے۔

اجلاس میں شرکت کے لیے ارکانِ اسمبلی مقرر کردہ وقت سے پہلے سے ہی پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ تحریکِ انصاف کے ارکان اپنی اپنی گاڑیوں پر اسمبلی آئے۔ جب کہ پی ٹی آئی کی خواتین ارکان اسمبلی عمران خان کے حق میں اور اپنے منحرف ارکان کے خلاف نعرے لگاتی ہوئی ایک بس سے باہر نکلیں۔

اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے ناراض ارکان، جن میں ترین گروپ، علیم گروپ اور اسد کھوکھر گروپ شامل ہیں، پانچ بسوں میں اسمبلی پہنچے۔ انہی بسوں سے اِن کے حمایت یافتہ حمزہ شہباز بھی اترے۔ جو بڑے پر اعتماد دکھائی دے رہے تھے۔

عبدالعلیم خان سے بطور صحافی میں نے شرارتاً کہا کہ کبھی آپ جہازوں پر سفر کرتے تھے۔ آج ارکانِ اسمبلی کے ساتھ بس پر آئے ہیں۔ جہاز سے بس تک کا سفر کیسا رہا؟

علیم خان مسکرائے اور مسکراتے ہوئے کہا کہ اچھا رہا، ساتھ ہی وہ اسمبلی ہال میں داخل ہو گئے۔

اس کے بعد سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اسمبلی پہنچے اور ایوان کے اندر چلے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عثمان بزدار اسمبلی کے اندر داخل تو مرکزی دروازے سے ہوئے تھے لیکن اُن کی واپسی عقبی دروازے سے ہوئی تھی۔ اِس کی وجہ آگے چل کر بتاتے ہیں۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقرر کردہ وقت ساڑھے گیارہ بجے سے ایک گھنٹہ 10 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ ابھی اجلاس شروع ہی ہوا تھا کہ ارکانِ اسمبلی کی جانب سے ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔

ہنگامہ آرائی پی ٹی آئی کی طرف سے شروع کی گئی۔ اُن کے ارکان نے ایوان کے اندر لوٹے لہرانے شروع کر دیے۔ جس کے بعد اچانک لوٹے اسپیکر ڈائس کی طرف اچھالنا شروع کر دیے گئے۔

میں نے دیگر ساتھی صحافیوں سے پوچھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوٹے کہاں سے آئے ہیں؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا۔

اسمبلی اسٹاف سے پوچھا تو اکثر کو نہیں معلوم تھا۔ اتنے میں سیکیورٹی پر مامور افراد میں سے ایک نے بتایا کہ صاحب لوٹے خواتین اپنے ساتھ لائی تھیں۔

میں نے تعجب سے پوچھا کہ وہ کیسے؟۔ باہر تو ہم بھی موجود تھے۔

سیکیورٹی اہل کار نے بتایا کہ خواتین کے پاس بڑے بیگ تھے۔ اُن میں لوٹے بھی موجود تھے۔ عام طور پر یہی خواتین اپنے چھوٹے بیگوں کے ہمراہ اسمبلی آتی ہیں۔ تب سمجھ میں آیا کہ لوٹے کہاں سے آ گئے۔

ہنگامہ آرائی اتنی بڑھی کہ ایوان کی کارروائی روکنی پڑی۔ اِس دوران ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری جو کہ ہفتہ کے روز ہونے والے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، پر تشدد کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔

ایوان کے اندر ارکانِ اسمبلی کے علاوہ بہت سے نئے چہرے بھی دیکھنے میں آئے۔ جانچ پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ افراد مہمانوں کی گیلری سے ایوان کے اندر داخل ہوئے ہیں۔

ایوان کی کارروائی دیکھنے کے لیے مہمانوں کے بیٹھنے کی جگہ الگ ہوتی ہے۔ جسے گیسٹ گیلری کہا جاتا ہے، جن کے باقاعدہ دعوت نامے جاری ہوتے ہیں۔

ہنگامہ آرائی کے باعث اجلاس ملتوی رہا۔ ایوان کے اندر نعرے بازی ہوتی رہی۔ اِسی دوران مجھے ایک فون آیا۔ فون کرنے والے نے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔

میں نے وجہ پوچھی کہ کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ تو جواب دیا کہ معلوم نہیں۔

میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ فون کرنے والے نے پوچھا کہ آپ کہاں ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ میں دیگر صحافیوں کے ہمراہ باہر موجود ہوں اور اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہا ہوں۔

فون کرنے والے نے کہا کہ وہ خود آپ کو لینے کے لیے آ رہے ہیں۔

چند ہی لمحوں میں اسمبلی اسٹاف میں سے ایک شخص میرے پاس آیا اور ساتھ چلنے کو کہا۔ جنہیں میں دیکھتے ہی پہچان گیا۔میں نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے۔ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ پرویز الہٰی موجودہ صورتِ حال پر انٹرنیشنل میڈیا سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔

مجھے اسمبلی کی عمارت کے اندر لے جایا گیا اور اِس کے بعد اسپیکر سیکرٹیریٹ میں بٹھایا گیا، جہاں پہلے سے برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رکن بیٹھی تھیں۔

کچھ ہی دیر میں وہاں پاکستان لیجسلیٹو اینڈ ٹرانسپرنسی انٹرنیشل کے مبصرین پہنچ گئے جس کے بعد پرویز الہیٰ آئے اور ہم سے ملنے کے بعد کہنے لگے کہ ہنگامہ آرائی کی ساری ذمہ داری اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ عدلیہ نے ایک متنازع ڈپٹی اسپیکر کو اجلاس کی صدارت کرنے کو کہا ہے۔

پرویز الہی کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق جس طرح ایوان عدالتی کاموں میں دخل اندازی نہیں کر سکتا۔ اِسی طرح عدلیہ بھی ایوان کے اندر مداخلت نہیں کر سکتی۔ پرویز الہٰی سے تفصیلی ملاقات کے بعد ہم نے اجازت چاہی۔

واپسی پر پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب سے میں نے پوچھا کہ بطور مبصر آپ کی کیا رائے ہے۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہنگامہ آرائی دیکھ کر اُنہیں بہت دکھ ہوا ہے۔ پارلیمانی روایات اور جمہوری اقدار کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی۔

اِسی دوران ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری پنجاب کو ایک خط لکھا جس میں آئین کا حوالہ دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اسمبلی کے اندر پولیس تعینات کی جائے۔

کچھ ہی دیر بعد وہاں پولیس اہل کار وردی میں اور سادہ کپڑوں میں پہنچ گئے جن کی موجودگی میں ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی۔

اجلاس ایک مرتبہ ہنگامہ آرائی کی نذر ہوا۔ اِس دوران چوہدری پرویز الٰہی کو زدوکوب کیا گیا لیکن اجلاس کی کارروائی جاری رہی جس کے بعد ایوان کی اِس کارروائی کا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی نے بائیکاٹ کیا۔

اِس بائیکاٹ کے بعد سابق وزیراعلیٰ پنجاب بھی اپنا ووٹ ڈالے بغیر اسمبلی کے عقبی دروازے سے باہر نکل آئے اور حفاظت پر مامور افراد کی مدد سے وہاں سے چلے گئے۔

ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے اسپیکر ڈائس سے ہٹ کر ایوان کی کارروائی چلائی اور رائے شماری کے عمل کا آغاز کیا۔ ایک طرفہ رائے شماری میں حمزہ شہباز کو 197 ووٹ ملے۔ جن کا ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے باقاعدہ اعلان کیا اور یوں حمزہ شہباز پنجاب کے نئے قائدِ ایوان منتخب ہو گئے ہیں۔

حمزہ شہباز کی کامیابی پر اسمبلی کے باہر اور مرکزی سڑک پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کا جشن شروع ہو گیا۔

XS
SM
MD
LG