ہانگ کانگ میں سخت حکومتی کارروائیوں ، صحافیوں کو دی جانے والی دھمکیوں اور خوف کے ماحول میں صحافیوں کا اپنے طور پر سینسر شپ نافذ کرنے سے میڈیا کی آزادی کی صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔
یہ انکشاف برطانیہ میں قائم مہم چلانے والے ایک گروپ نے کیا ہے۔ ہانگ کانگ واچ نے مغربی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ برطانیہ کے اس پرانے علاقے کے صحافیوں کو ویزہ دے کر اور ان کی زبان کے اداروں میں جگہ دے کر ان کا تحفظ کریں۔
گروپ کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ اور چین دونوں حکومتیں ہانگ کانگ میں میڈیا کی آزادی سلب کرنے کی ذمہ دار ہیں جو بیجنگ کی جانب سے 2020ء کے قومی سلامتی کے قوانین کے نفاذ کے لیے سلب کیا جارہی ہے۔
ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہانگ کانگ میں میڈیا کی آزادی کی صورتحال سنگین ہے۔ عالمی برادری اس صورتحال کے ذمہ داروں کوکسی صورت معاف نہ کرے ۔
ہانگ کانگ واچ نے پیر کو غیر ملکی صحافیوں کے کلب کے انسانی حقوق کے سالانہ ایوارڈ کی منسوخی پر خدشے کا اظہار کیا کہ انھیں اس سرخ لائن عبور کرنے کے الزام میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔مہم گروپ کے سربراہ بینڈیکٹ راجر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ہانگ کانگ میں آزادی صحافت کے لیے ایک سنگین دھچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ صرف ہانگ کانگ کا نقصان نہیں بلکہ پورے ایشیا میں انسانی حقوق اور آزادی کے لیے نقصان دہ ہے۔
راجر نے مزید کہا کہ ہانگ کانگ میں صحافی ہونا آج سے پہلے کبھی اتنا خطرناک نہیں تھا ، خود انھیں برطانیہ میں رہنے کے باوجود قومی سلامتی کے قانون کے تحت مقدمے کی دھکمی دی گئی ہے۔
ہانگ کانگ واچ نے پولیس اور بیجنگ کے حامیوں کی جانب سے رپورٹرز کے خلاف تشدد ، نیوز رومز میں خوف کی فضا اور جمہوریت نواز مہم چلانے والوں کے خلاف جاری وسیع کریک ڈاون میں گرفتاریوں کی تفیصلی رپورٹ دی ہے۔
آر ٹی ایچ کے کبھی انتہائی معتبر اور بی بی سی کے براڈکاسٹر کے لیے ایک مثالی ادارہ ہوتاتھا، جو اب صرف حکومت کا ایک پروپیگنڈہ کرنے والا ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔
حکومت کے کریک ڈاون سے بیجنگ کے حامی میڈیا ادارے فائدہ اٹھارہے ہیں، جنھیں اس بات کا سامنا ہے کہ نام نہاد جعلی خبروں کے خلاف قانون کے تحت پولیس یہ طے کرتی ہے کہ کون صحافی بننے کا اہل ہے ۔
آر ٹی ایچ کے ایک سابق صحافی اسٹیو وائنس جو گزشتہ ہانگ کانگ میں 35 سال خدمات انجام دینے کے بعد برطانیہ واپس لوٹ آئے ہیں ، کہا کہ اس علاقے میں آزادی کی تباہی تیزی سے جاری ہے۔انھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ’ ہانگ کانگ کی قسمت ‘ باقی دنیا کے لیے کمیونسٹ حکومت کے خطرات کی ایک یاد دہانی ہے جس کے اثرات عالمی برادری میں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔