رسائی کے لنکس

صحافیوں پر مقدمات کا اندراج؛ ’ان کی ناراضی اب غصے میں بدل چکی ہے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں مبینہ طور پر حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں پر مختلف شہروں میں ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال انگیزی کے الزامات میں ایف آئی آر درج کرانے کے واقعات سامنے آئے ہیں جن کے بعد ان مقدمات میں نامزد صحافی عدالتوں سے رجوع کررہے ہیں۔

اب تک حکومت کے ناقد تصور ہونے والے جن صحافیوں پر مقدمات درج کئے گئے ہیں ان میں ارشد شریف، صابر شاکر، سمیع ابراہیم، اور عمران ریاض خان شامل ہیں۔ ان صحافیوں کے خلاف مبینہ طور پر ریاستی اداروں پر تنقید اور بغاوت پر اکسانے کی دفعات کے تحت مختلف شہروں میں مقدمات درج کیے میں۔

صحافتی تنظیموں نے ان مقدمات کو آزادی رائے کے منافی قرار دیا ہے جب کہ حکومت صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے تاثر اور الزامات کی تردید کرتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں ماضی میں ان دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے صحافیوں کو گرفتار بھی کرتے رہے ہیں۔

’ناراضی غصے میں بدل گئی‘

ایسے ہی ایک مقدمے میں نامزد کیے گئے صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وہ بطور صحافی اپنے ذرائع سے موصول ہونے والی اطلاعات عوام تک پہنچا رہے تھے لیکن اس پر بعض حلقوں کی جانب سے پہلے اعتراضات اور بعد ازاں ناراضی کا اظہار کیا جانے لگا۔

وہ کہتے ہیں کہ اعتراض ان کی گفتگو اور بیانیہ پر تھا اور اسی بنا پر انھیں دباؤ کے سبب متعدد ٹوئٹس ہٹانی پڑیں۔ جب کہ یوٹیوب پر ان کی گفتگو پر بھی اعتراض کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ناراضی بعد میں غصے میں تبدیل ہوگئی اور ان پر مقدمات درج ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

اس سوال پر کہ یہ اعتراض کن حلقوں کی جانب سے تھا ؟ صابر شاکر نے کہا کہ اس بارے میں تبصرے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے کیوں کہ وہ عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس بارے میں مناسب فورم پر بات کریں۔


انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافی ارشد شریف کو کسی بھی مقدمے میں گرفتاری سے قبل عدالت کو مطلع کرنے کے احکامات دیے ہیں اور وہ بھی ملک واپسی پر عدالت تک محفوظ رسائی کے لیے اپنے وکلاء سے مشاورت کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ صابر شاکر خود پر مقدمات کے انداج کے بعد بیرون ملک چلے گئے تھے۔ارشد شریف، اور سمیع ابراہیم کا مؤقف جاننے کے لیے جب ان سے رابطہ کیا گیا تو وہ فون پر دستیاب نہیں ہوسکے۔ البتہ انہوں نے اپنے خلاف مقدمات سے ضمانت کے لیے عدالتوں سے رجوع کررکھا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ارشد شریف کی ضمانت کی درخواست پر ہونے والی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ صحافیوں کے خلاف درج ہونے والے مقدمات سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں اور یہ مقدمات عام لوگوں نے درج کرائے ہیں۔

گزشتہ کچھ عرصے میں جن صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں انھیں عام طور پر سابق حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کا حامی تصور کیا جاتا ہے۔

سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے صحافیوں پر مقدمات کے اندراج کی مذمت کرتے ہوئے اسے سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیا۔ اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں انہوں نے حکومت کے ان اقدامات کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔

’عالمی درجہ بندی مزید گرے گی‘

صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کے صدر شہزادہ ذوالفقار صحافیوں پر درج ہونے والے مقدمات سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی شہر میں صحافی پر ریاستی اداروں کے خلاف بات کرنے کا الزام عائد کرے اور مقدمہ درج کرادے۔

ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور اداروں کی جانب سے صحافیوں کو ڈرانا دھمکانا، ان کی نگرانی کرنا اور فون پر ہرااساں کرنا کسی صورت مناسب نہیں ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ حکومت میں بھی جاری رہا جس کے سبب پاکستان آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں کئی درجے نیچے آگیا تھا۔

یاد رہے کہ عالمی صحافتی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کی 2022 کی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان 12 درجے تنزلی کے ساتھ اس 157ویں نمبر پر چلا گیا تھا۔


شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی وجہ ہی سے پاکستان کے سابق وزیر اعظم کا شمار میڈیا ڈکٹیٹرمیں ہوتا رہا ہے جس کے باعث دنیا میں ملک کی بدنامی ہوئی۔

وہ کہتے ہیں کہ صحافی کی رائے سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ مقدمات کا اندراج اور الزام تراشی کے بجائے اس کی رائے یا خبر پر اپنا مؤقف اور بیانیہ دیں ۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو صحافت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی مزید تنزلی ہوگی اور بیرونی دنیا میں اس کا تاثر مزید خراب ہوگا جو کسی صورت مناسب نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG