پاکستان کی وفاقی کابینہ نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف لانگ مارچ کے دوران تشدد پر اُکسانےکے الزام میں بغاوت کا مقدمہ درج کرانے پر غور شروع کر دیا ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے اعتراف کر لیا ہے کہ لانگ مارچ کے دوران اُن کے لوگوں کے پاس پستول تھے۔ لہذٰا کابینہ کی ذیلی کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جو عمران خان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرانے کے لیے سفارشات دے گی۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیس میں جرم ثابت ہونے پر عمر قید تک کی سزا دی جاسکتی ہے۔
رانا ثناء اللہ کے اس بیان کے جواب پر تحریکِ انصاف نے لانگ مارچ کے دوران پولیس کے مبینہ تشدد اور شیلنگ کی ویڈیوز اقوامِ متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھجوانے کا اعلان کیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے الزام لگایا کہ عمران خان کا مارچ ایک سیاسی پروگرام نہیں بلکہ فتنہ و فساد پروگرام تھا۔ ان کا اسلحہ لانے کا اقدام کریمنل ایکٹ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے لوگ احتجاج کے دوران گولی چلانا چاہتے تھے۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ان تمام عوامل کو کابینہ کے سامنے رکھا جائے گا تاکہ قانون کے مطابق کارروائی کو آگے بڑھایا جائے۔
رانا ثناء اللہ نے الزام لگایا کہ عمران خان نے لانگ مارچ کے لیے خیبرپختونخوا حکومت کے وسائل کو استعمال کیا، چند ہزار مسلح لوگ اسلام آباد کی طرف بڑھے، انتشار پھیلانے کے لیے پارلیمنٹ لاجز اور کے پی ہاؤسز میں جتھوں کو ٹھہرایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کا یہ بیان درست ہے کہ کارکنان لانگ مارچ میں اسلحہ لائے تھے اور وہاں 100 فی صد خون خرابہ ہونا تھا، میں کہتا ہوں کہ 100 فی صد نہیں بلکہ دو سو فی صد وہاں خون خرابہ ہی ہونا تھا۔
بغاوت کا مقدمہ درج کیسے ہوگا؟
مختلف قانونی ماہرین کے مطابق ریاست کے خلاف بغاوت کا یہ مقدمہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 124 اے کے تحت درج کیا جاسکتا ہے۔
سیکشن 124 اے کے مطابق کوئی بھی شخص جو اپنے الفاظ سے زبانی، تحریری یا کسی نمائندے کے ذریعے وفاقی یا صوبائی حکومت کے خلاف بغاوت کرے اس کے خلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
اس سیکشن کے تحت صرف وفاقی یا صوبائی حکومت مقدمہ درج کرواسکتی ہے اور اس مقصد کے لیے وفاقی یا صوبائی کابینہ کا حکم مقامی انتظامیہ کو دیا جائے گا اورجس علاقہ میں یہ جرم ہوگا وہاں کے مجسٹریٹ کی مدعیت میں یہ مقدمہ درج کیا جائے گا جس کے بعد تفتیش کا عمل شروع ہو گا۔
قانون کے مطابق اس جرم میں زیادہ سے زیادہ عمر قید اور جرمانہ یا پھر کم از کم تین سال قید اور جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے خلاف بغاوت پر اُکسانے پر 124اے کے جب کہ ریاست کے خلاف مسلح ہو کر جنگ کرنے پر آرٹیکل 125 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔
حکومت کی طرف سے اب تک واضح نہیں کیا گیا کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کن سیکشنز تحت مقدمہ درج کروایا جائے گا۔
ماضی میں انسانی حقوق کے کارکن عمار علی جان، عمار رشید اور دیگر کئی کارکنوں کے خلاف ایسے مقدمات درج کروائے جاچکے ہیں۔
'حکومتی درخواست کا متن اہم ہو گا'
انسانی حقوق کے مختلف کیسز پر کام کرنے والے سینئر وکیل عثمان وڑائچ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں حکومت کی طرف سے اندراج مقدمہ کے لیے درج کرائے جانے والی درخواست کا متن اہم ہو گا۔
اُن کے بقول اگر اس تحریر میں عمران خان اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پر سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے وفاق پر چڑھائی کا الزام عائد کیا جائے گا تو اس کے سیکشن الگ ہوں گے۔ اسی طرح مسلح ہو کر وفاق پر چڑھائی کے الزامات کی دفعات الگ ہوں گی۔
ان تمام الزامات پر الگ الگ سزا اور جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کون کون سے سکیشن اس مقدمہ میں درج کرتی ہے جس کے بعد اس کی باقاعدہ تفتیش ہوگی اور ملزمان کو گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔
تحریکِ انصاف کا ردِعمل
منگل کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ رانا ثناء اللّٰہ کی پریس کانفرنس کو اگر آنکھ بند کرکے سنیں تو لگے گا کہ بانی ایم کیو ایم بول رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ رانا ثناء اللّٰہ کی پریس کانفرنس ایسے ہی ہے، جیسے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور حکومت میں اسلام آباد میں جتنے بھی مظاہرے ہوئے ہم نے ان کو سہولت فراہم کی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ لانگ مارچ کے دوران جماعت کے کارکنوں پر بری طرح تشدد کیا گیا، ہم تشدد کی تمام ویڈیوز جمع کررہے ہیں جنہیں اقوام ِمتحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھیجیں گے تاکہ وہ بھی توجہ دیں۔