کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) اور حکومتِ پاکستان کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے کی اطلاعات ہیں جس کے بعد فریقین نے جنگ بندی میں غیر معینہ مدت کی توسیع کر دی ہے۔
حکومتِ پاکستان اور افغانستان میں تعینات پاکستانی سفارتی حکام کی جانب سے کابل میں جاری مذاکرات کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم قبائلی زعما اور سیاسی حلقوں نے جنگ بندی میں غیر معینہ مدت کے لیے توسیع کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے ٹی ٹی پی کے ساتھ جلد امن معاہدے کی اُمید ظاہر کی ہے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق ممکنہ امن معاہدے کے لیے اعلٰی حکومتی عہدے داروں کے علاوہ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے عمائدین پر مشتمل 50 رُکنی جرگہ بھی جلد کابل جائے گا۔
'ٹی ٹی پی کی سخت شرائط، امن معاہدہ آسان نہیں ہو گا'
تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرت میں پیش رفت کے دعوؤں کے باوجود سابق فوجی حکام اور سیاسی تجزیہ کار امن معاہدے کے لیے ٹی ٹی پی کی شرائط کو بہت سخت قرار دے رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد محمد خان کہتے ہیں کہ حتمی معاہدے تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت سے مراحل طے ہونا باقی ہیں۔
خیبرپختونخوا کے سابق چیف سیکریٹری اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی بعض شرائط ایسی ہیں جن کی وجہ سے معاہدے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ ان شرائط میں قبائلی اضلاع سے فوج کی واپسی اور ٹی ٹی پی کا فوجی آپریشن کے دوران مالی اور جانی نقصانات کے ازالے جیسے مطالبات شامل ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران فوج نے افغانستان سے ملحقہ قبائلی اضلاع میں چھاؤنیاں بنائی ہیں، لہذٰا ان اضلاع سے فوج کی واپسی یا ان تنصیبات کو خالی کرنا فوج کے لیے ناممکن ہو گا۔
ٹی ٹی پی فاٹا کے انضمام کی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟
ایک سوال کے جواب میں رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع کی جداگانہ حیثیت کی بحالی کا مطالبہ صرف طالبان کا نہیں بلکہ قبائلی اضلاع کی اکثریت اس مطالبے کی حامی ہے۔
اُن کے بقول قبائلی اضؒلاع میں پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے طالبان ان علاقوں میں اپنی مقبولیت کھو چکے تھے، لہذا قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کر کے وہ یہاں کے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) سعد محمد خان کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام آئین میں ترمیم کے ذریعے ہوا تھا، لہذٰا اس ترمیم کو ختم کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔
خیال رہے کہ 2019 میں آئینِ پاکستان میں کی گئی 25 ویں ترمیم کے ذریعے قبائلی اضلاع کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔
امن معاہدے کے بعد ٹی ٹی پی کے لوگ کہاں جائیں گے؟
حکومتِ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغانستان میں جاری مذاکرات پر نظر رکھنے والے افغان صحافی سید رحمان رحمانی کا دعویٰ ہے کہ فریقین معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُ ن کا کہنا تھا کہ امن معاہدے کی صورت میں ٹی ٹی پی کے لوگوں کو باجوڑ، مہمند اور وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں آزادانہ زندگی گزارنے کی اجازت ہو گی۔
اُن کے بقول پاکستانی طالبان پر افغانستان میں طالبان حکومت کا سخت دباؤ ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ معاہدہ کریں۔ لہذٰا ٹی ٹی پی بہت جلد معاہدے پر دستخط کر دے گی۔
سید رحمان رحمانی نے سوات سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طالبان کے رہنما کے حوالے سے بتایا کہ اُنہیں کہا گیا ہے کہ وہ معاہدے کے بعد بھی سوات نہیں جائیں گے بلکہ پاک، افغان سرحد کے ملحقہ مخصوص مقام پر ہی اُنہیں رہائش رکھنے کی اجازت ہو گی۔
مجوزہ معاہدے پر عمل درآمد بڑا چیلنج
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ کانفلکٹ اسٹیڈیز کے سابق سربراہ اور تجزیہ کار ڈاکٹر جمیل چترالی کا کہنا ہے کہ پختون معاشرے میں ماضی میں بھی امن معاہدے ہوتے رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ امن معاہدے کی صورت میں سیاسی قیادت پر یہ بھاری ذمے داری ہو گی کہ وہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے رجحانات کے مستقل خاتمے اور معاہدے پر عمل درآمد کیسے یقینی بناتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کئی عالمی طاقتیں بھی یہ نہیں چاہتیں کہ اس خطے میں دہشت گردی اور تشدد کاخاتمہ ہو ۔ لہذا وہ یہاں بد امنی کے لیے سرمایہ کاری بھی کرتی رہتی ہیں۔
محسود قبائل کے جرگے کے ترجمان اور ضلع خیبر کے قبائلی رہنما حاجی بسم اللہ خان آفریدی نے بتایا کہ فریقین نے مصالحت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لہٰذا اب کوئی بڑی رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ذرائع نے رابطے پر وائس آف امریکہ کی جانب سے بھجوائے گئے تحریری سوالات کے جواب میں حتمی معاہدے پر پہنچنے کی تردید کی، تاہم اُن کے بقول س بہت ے معاملات پر اتفاق ہوا ہے۔
حالیہ عرصےمیں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے حکومت اور فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ آئینِ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے شدت پسند تنظیم کے ساتھ مذاکرات کریں گے جس میں ملکی مفاد کو ترجیح دی جائے گی۔
خیال رہے کہ افغان طالبان اور تحریکِ طالبان پاکستان نے چند روز قبل تصدیق کی تھی کہ پاکستانی فوج کے کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل فیض حمید مذاکرات کے سلسلے میں کابل آئے تھے اور اُن کی ٹی ٹی پی کی قیادت کے ساتھ بھی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ حکومتِ پاکستان یا فوج نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔
شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان(ٹی ٹی پی) اور پاکستانی فوج کے درمیان گزشتہ ایک ماہ سے افغانستان میں مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے جس میں افغان طالبان بھی سہولت کار کا کر دار ادا کر رہے ہیں۔ مذاکرات کے پیشِ نظر فریقین نے 30 مئی تک عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جس میں اب مزید توسیع کر دی گئی ہے۔