رسائی کے لنکس

ضمنی انتخابات کے دوران لاہور میں ماحول کیسا رہا، رپورٹر ڈائری


اتوار کی صبح جب میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے لیے پہلے لاہور کے علقہ پی پی 158 گڑھی شاہو میں علامہ اقبال روڈ پر قائم گورنمنٹ سردار ہائی اسکول میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن پر پہنچا تو چند ایک ووٹرز آٹھ بجے سے قبل ہی پہنچنا شروع ہو گئے۔ اِنہی میں شامل ایک شخص لطیف احمد تھے جو اپنی اہلیہ کے ہمراہ ووٹ ڈالنے آئے تھے۔

میں نے لطیف صاحب سے پوچھا کہ آپ چھٹی والے دِن صبح صبح ہی پہنچ گئے جب کہ عام طور پر اہلیانِ لاہور ہفتہ وار تعطیل کو قدرے آرام سے اٹھتے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے۔ اُن کی اہلیہ کہنے لگیں کہ بیٹا آج تو اِنہوں نے ناشتہ بھی نہیں بنانے دیا اور کہا کہ چلو پہلے ووٹ ڈال کر آتے ہیں۔

اِس کے بعد لطیف صاحب کہنے لگے کہ ووٹ ڈالنا ناشتے سے زیادہ ضروری ہے اور سب کو یہ کام فرض سمجھ کر کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب بھی الیکشن ہوتے ہیں اُن کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ ووٹ کا حق استعمال کریں۔

لطیف احمد کے بقول وہ اِیک جمہوریت پسند آدمی ہیں اور اپنے محلہ داروں اور رشتہ داروں کو بھی ووٹ کی اہمیت بارے بتاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہمراہ اپنے بیٹے اور بہو کو بھی لائے ہیں جس پر میں نے سوال کیا کہ آپ کے ووٹوں سے حکومت بنتی ہے؟

اُنہوں نے جواب دیا ـ"پتر ساڈا کام ووٹ پانا ہے۔ کدی بن جاندی اے تے کدی نئیں بندی۔" بیٹا ہمارا کام ووٹ ڈالنا ہے۔ کبھی بن جاتی ہے اور کبھی نہیں بنتی ہے۔

اِس پولنگ اسٹیشن اور اِس کے ذرا فاصلے پر قائم دوسرے پولنگ اسٹیشن پر میں نے تقریباً ڈیرھ گھنٹہ گزارا۔ جہاں مجھے ووٹرز کم تعداد میں دکھائی دیے جس کی وجہ میں نے اپنے صحافی دوستوں سے پوچھی تو ایک صحافی نے جواب دیا کہ چونکہ آج چھٹی ہے اور اہلیانِ لاہور کا مزاج نہیں چھٹی والے دِن جلدی اٹھنا۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ ٹرن آوٹ یعنی ووٹ ڈالنے کی شرح میں دوپہر بارہ سے ایک بجے کے بعد اضافہ ہو سکتا ہے جس کا میں نے بطور صحافی عملی مظاہر ہ بھی دیکھا۔ دوپہر ایک بجے کے بعد مجھے ہوم اکنامکس یونیورسٹی گلبرگ میں قائم پولنگ اسٹیشن اور ٹاؤن شپ میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشنوں پر جانے کا اتفاق ہوا۔

جہاں ووٹرز زیادہ تعداد میں نظر آئے۔ ٹاؤن شپ میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن پر پولنگ کے عمل کی رپورٹنگ کرنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کے اندر جانا چاہا تو وہاں موجود پولیس اہلکار نے اندر جانے سے روک دیا۔ اپنا تعارف کرایا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے بنائے گئے کارڈ دکھانے پر پولیس اہل کار نے اپنے افسر سے پوچھ کر اندر جانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ کبھی اُن کی بھی تصویر بنا لیا کریں وہ بھی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو رپوٹنگ کی غرض سے مخصوص کارڈ بنا کر دیتا ہے جسے دکھا کر وہ وہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر جا سکتے ہیں اور انتخابی عمل کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں۔

ضمنی انتخابات میں جہاں مقامی ووٹرز کی دلچسپی دیکھنے میں آئی وہیں کچھ پاکستانی نژاد غیر ملکی ووٹرز سے بھی ملاقات ہوئی۔ اِنہی میں سے ایک ابرار احمد ہیں جن سے ٹاؤن شپ میں گرلز ہائی اسکول میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن میں ایک ووٹر سے ملاقات ہوئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ابرار نے بتایا کہ وہ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہتے ہیں اور خاص طور پر ووٹ ڈالنے کے لیے پاکستان آئے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ بطور اوورسیز پاکستانی وہ پاکستان کی سیاسی صورتِ حال میں خاصی دلچسپی لیتے ہیں اور سڈنی میں رہ کر بھی پاکستان کی صورتِ حال سے باخبر رہتے ہیں۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے بتایا کہ اُن سمیت دیگر پاکستانی نژاد آسٹریلوی شہری پاکستان ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہیں جو وہاں بھی مختلف مکالموں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ ابرار احمد کے بقول اُنہیں ووٹ ڈالنے کے لیے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں رہا۔


ٹاؤن شپ پولنگ اسٹیشن کے بعد بطور صحافی اگلا پڑاؤ پاک عرب سوسائٹی میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن کا تھا۔ جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریکِ اںصاف کے ووٹر اور سپورٹر ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔

صورتِ حال کی نزاکت کو سمجھتے ہی دونوں جانب سے بزرگ ووٹرز نے اپنے اپنے ووٹرز کو پیچھے ہٹایا اور سمجھایا کہ یہ ایک انتخابی عمل ہے۔ پر امن طریقے سے پورا ہونا چاہیے۔

لاہور ہی کے علاقے احاطہ مکھن سنگھ میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن پر لڑائی جھگڑے کی خبریں آنے کے بعد وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ پولنگ کا عمل کچھ دیر کے لیے رکا ہوا ہے۔ وجہ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی ہے۔

دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔ صورتِ حال کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے پولیس کی اضافی نفری کو طلب کیا گیا جس نے آ کر دونوں جماعتوں کے کارکنوں کو پیچھے ہٹایا اور پرامن رہنے کو کہنا۔


علاقہ ایس ایچ او نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ دوسری مرتبہ ایسا ہوا کہ دونوں جماعتوں کے کارکن آنے سامنے آ جاتے ہیں لیکن پولنگ کا عمل ایک بار ہی رکا ہے۔

پانچ بجنے میں پانچ منٹ کا وقت رہ گیا تھا کہ ریٹرننگ افسر نے پولنگ اسٹیشن کے باہر آ کر اعلان کیا کہ پورے پانچ بجے پولنگ اسٹیشن کے دروازے بند کر دیے جائیں گے جو بھی ووٹر پولنگ اسٹیشن کے اندر ہو گا صرف وہی ووٹر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر سکے گا۔ کسی اور ووٹر کو پانچ بجے کے بعد پولنگ اسٹیشن کی حدود میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔

خیال رہے الیکشن کمیشن کے مطابق لاہور میں صوبائی اسمبلی کی چار نشستوں پر کل ووٹرز کی تعداد سات لاکھ 22 ہزار 869 ہے جن میں سے مرد ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 82 ہزار ن928 اور خواتین ووٹرز کی تعداد تین لاکھ 39 ہزار 950 ہے۔ جن کے لیے مجموری طور پر 466 پولنگ اسٹیشن قائم بنائے گئے ہیں۔


واضح رہے پنجاب کے بیس حلقوں میں مجموعی طور پر 175امیدواروں نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا۔ جہاں 45 لاکھ سے زائد ووٹرز تھے۔

صوبے کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں کہیں کہیں ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزیوں کی شکایات بھی سامنے آتی رہی۔ پنجاب حکومت کے مطابق مجموعی طور پر الیکشن پر امن رہا۔

XS
SM
MD
LG