پنجاب اسمبلی میں 22 جولائی کو وزیرِ اعلٰی پنجاب کا انتخاب ڈرامائی موڑ آنے کے بعد ختم ہوا، لیکن کئی سوالات چھوڑ گیا۔ چوہدری پرویز الہٰی 186 ووٹ لے کر بھی وزیرِ اعلٰی نہ بن سکے جس کی وجہ ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے مسلم لیگ(ق) کے 10 ووٹ مسترد کرنا بنی۔
جمعے کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر منعقد کیے جانے والے اس اہم اجلاس سے قبل کسی کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ چوہدری شجاعت حسین کا ایک خط بازی پلٹ دے گا اور ایوان میں حمزہ شہباز کی جیت کے باوجود نعرے آصف زرداری کے لگیں گے۔
پنجاب اسمبلی کا نئے وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کے لیے اجلاس کا وقت جمعہ کی شام چار بجے مقرر تھا جس کی رپورٹنگ اور کوریج کے لیے میں اور دیگر صحافی جمعہ کی نماز سے قبل ہی تقریبا ساڑھے بارہ بجے وہاں پہنچ گئے۔
ابھی ہم پہنچے ہی تھے کہ اسمبلی کے مرکزی دروازے سے بسیں داخل ہوتی ہوئی نظر آئیں۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ اِس میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ق) کے ارکانِِ اسمبلی اپنی جماعت کی حکمتِ عملی کے تحت لاہور کے مال روڈ پر قائم نجی ہوٹل سے اکٹھے پہنچے ہیں۔ تمام ارکان پر اعتماد دکھائی دے رہے تھے۔
اِس کے ساتھ ہی پی ٹی آئی کے مرکزی قائدین شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر بھی پنجاب اسمبلی پہنچ گئے۔ میرے ساتھ کھڑے نجی ٹی وی ڈان نیوز کے رپورٹر علی وقار نے بطور صحافی شاہ محمود قریشی سے سوال کیا کہ جب پاکستان کے ایوانِ بالا یعنی سینٹ میں صادق سنجرانی اقلیت میں تھے لیکن وہ جیت گئے تھے۔ تب کی اور آج کی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟ شاہ محمود قریشی نے جواب دیا کہ اُنہیں ایوان کے اندر جانا ہے۔ وہ بات نہیں کر سکتے۔
اتنی دیر میں اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی جو کہ پی ٹی آئی اور اِس کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی جانب سے وزیراعلٰی پنجاب کے اُمیدوار بھی تھے اسمبلی پہنچ گئے۔
صحافیوں اور کیمرہ مین حضرات نے اُنہیں گھیر لیا۔ موقع پاتے ہی بطور صحافی میں نے اُن سے سوال کیا کہ چوہدری صاحب آج کون جیتے گا؟ چوہدری صاحب نے پراعتماد انداز میں مسکراتے ہوئے جواب دیا “تھوڑا صبر کر لیں، شام چار بجے سب پتا چل جائے گا۔”
اتنے میں گھڑی نے چار بجا دیے اور پنجاب اسمبلی کے اندر سے گھنٹیاں بجنے کی آوازیں آنے لگیں۔ واضح رہے ایوان کا اجلاس اگر مقررہ وقت پر نہ شروع ہو تو گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں اور یہ اُس وقت تک بجتی رہتی ہیں جب تک اجلاس شروع نہیں ہو جاتا۔
ایک صحافی دوست نے مجھ سے پوچھا کہ مسلم لیگ (ن) والے نظر نہیں آ رہے۔ میں نے جواب دیا کہ ابھی اُن کی پارلیمانی جماعت کا اجلاس ختم ہوا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ بھی اسمبلی پہنچ جائیں گے۔ جس کے کچھ دیر بعد مسلم لیگ (ن) اور اِس کی اتحادی جماعتیں جن میں پیپلز پارٹی، راہِ حق پارٹی اور آزاد ارکان شامل تھے بسوں میں سوار ہو کر اسمبلی پہنچ گئے۔
ایک لمحے کو پنجاب اسمبلی کا احاطہ لاہور کے لاری اڈے کا منظر پیش کر رہا تھا، جہاں مسلم لیگ (ق) اور پی ٹی آئی کی بسیں پہلے سے موجود تھیں اور اَب مسلم لیگ (ن) کی بھی آ گئیں۔
مسلم لیگ (ن) اور اُس کے اتحادی حمزہ شہباز کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے اسمبلی کے اندر داخل ہو گئے۔ اِن کے داخل ہونے کے بعد بھی گھڑی کی سوئی ٹِک ٹِک کرتی رہی جب کہ اسمبلی کی گھنٹیاں بدستور بجتی رہیں۔
چوہدری شجاعت کے خط کی گونج
سب کو اجلاس شروع ہونے کا انتظار تھا۔ اتنے میں ذرائع ابلاغ میں کسی خط کا ذکر آنے لگا جس کے بعد صحافیوں نے سرگوشیوں میں باتیں شروع کر دیں کہ چوہدری شجاعت حسین نے ڈپٹی اسپیکر کو کوئی خط لکھا ہے۔ لیکن کسی کو بھی اِس خط کے مندرجات بارے صحیح سے علم نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنے اپنے اندازوں سے اندر کی بات کا کھوج لگانے کے چکر میں تھا۔
ابھی سرگوشیاں جاری ہی تھیں کہ ساڑھے چھ بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی زیرِ صدارت شروع ہو گیا۔
اسپیکر ڈائس کو پنجاب پولیس کے اہلکاروں اور اسمبلی کے سارجنٹ ایٹ آرمرز نے اپنی تحویل میں لے رکھا تھا۔ اجلاس شروع ہوتے ہی گھنٹیاں بجنا بند ہو گئیں۔
اجلاس کے آغاز پر ڈپٹی اسپیکر نے عدالتِ عظمٰی کے حکم پر اجلاس کی کارروائی کا ذکر کیا کہ جمعے کو ہونے والے اجلاس میں وزیراعلٰی پنجاب کا انتخاب کیا جائے گا۔ ڈپٹی اسپیکر جو کہ پریذائیڈنگ افسر بھی تھے، اُنہوں نے اعلان کیا کہ دو منٹ کے لیے گھنٹیاں بجائی جائیں تا کہ اگر کوئی معزز رکن ایوان کے اندر نہیں تو وہ بھی آ جائے۔
اُس کے بعد دوست محمد مزاری نے اعلان کیا کہ جو حمزہ شہباز کو ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ اسپیکر ڈائس کے دائیں جانب اور جو پرویز الٰہی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں وہ اسپیکر ڈائس کے بائیں جانب جمع ہو جائیں۔
ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے کے بعد ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ حمزہ شہباز نے 179 ووٹ حاصل کیے ہیں جب کہ چوہدری پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کیے ہیں۔
اِس سے پہلے کہ ارکان اسمبلی کی جانب سے کوئی ردِعمل آتا دوست مزاری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ اُنہیں چوہدری شجاعت حسین جو کہ مسلم لیگ (ق) کے صدر بھی ہیں۔ اُنہوں نے ایک خط بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ بطور جماعت کے صدر اُنہوں نے اپنی جماعت کے ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ پرویز الٰہی کو ووٹ نہ دیں۔
اسی دوران اُنہوں نے عدالتِ عظمٰی کی رولنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی رولنگ کے مطابق اگر کسی بھی جماعت کے ارکان پارٹی صدر کی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو اُن کا ووٹ شمار نہیں کیا جائے گا۔
لہذا پرویز الٰہی کے دس ووٹ کم ہو کر 176 رہ گئے ہیں اور حمزہ شہباز 179 ووٹ حاصل کر کے وزیر اعلٰی پنجاب بن گئے ہیں جس کے بعد اُنہوں نے اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔
ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے اِس اعلان کے ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) کے ارکانِ اسمبلی نے ڈیسک اور تالیاں بجا کر اپنی خوشی کا اعلان کیا اور حمزہ شہباز کو کندھوں پر اٹھا لیا۔ ساتھ ہی ایوان میں “ ایک زرداری سب پر بھاری” کے نعرے لگنے لگے۔
میں ایوان سے نکل کر ابھی اسمبلی میں ہی تھا تو ایک دوست کا فون آیا جس نے کہا بتاؤ میڈیا والو مل گیا نا سرپرائز۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ اصل میں زرداری 'کنگ میکر' ہے۔
اجلاس کے بعد چوہدری پرویز الٰہی نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) نے ڈپٹی اسپیکر کا فیصلہ مسترد کر دیا۔ دونوں جماعتوں کے قائدین نے قانونی ٹیم سے مشاورت مکمل کر کےسپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا۔