افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعرات کو ایک دینی مدرسے میں ہونے والے خودکش حملے میں طالبان کے ایک اہم مذہبی رہنما رحیم اللہ حقانی ہلاک ہو گئے ہیں جو داعش کے خلاف اپنی تند و تیز تقریروں کی بنا پر شہرت رکھتے تھے۔
دیو بند مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے مولوی رحیم اللہ حقانی کا تعلق افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ صوبہ ننگرہار سے تھا اور وہ کئی برسوں تک پشاور میں بھی مقیم رہے تھے۔
سینئر صحافی مشتاق یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رحیم اللہ حقانی پر ہونے والے خودکش حملے میں ان کے ایک بیٹے کی بھی ہلاکت ہوئی ہے جب کہ اس حملے میں مبینہ طور پر ملوث ان کے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
رحیم اللہ حقانی کو سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور میں گرفتار بھی کیا گیا جب کہ ان پر مبینہ طور پر امریکہ نے ڈرون حملہ بھی کیا تھا جس میں وہ خود محفوظ رہے تھے، تاہم ان کے ایک صاحبزادے ہلاک ہو گئے تھے۔
دارلعلوم حقانیہ کے فارغ التحصیل
افغان طالبان کے دیگر کئی رہنماؤں کی طرح رحیم اللہ حقانی نے بھی دینی تعلیم پاکستان کے علاقے اکوڑہ خٹک کے درالعلوم حقانیہ سے حاصل کی تھی۔ چارسدہ کے عالمِ دین اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما شیخ محمد ادریس بھی ان کے اُستادوں میں شامل تھے۔
بیس برس قبل مولوی رحیم اللہ حقانی نے پشاور کی رنگ روڈ پر واقع دیر کالونی میں دیگر ہم خیال علما کے ساتھ مل کر جامعہ زبیریہ کے نام سے مدرسہ بھی قائم کیا تھا۔ وہ اس مدرسے سمیت دو مختلف دینی درس گاہوں میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔
جامعہ زبیریہ میں پشاور اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں کے علاوہ افغانستان کے مختلف صوبوں سے بھی سینکڑوں طلبہ تعلیم حاصل کرتے تھے۔ ان طلبہ میں افغان طالبان کے اہم کمانڈرز اور رہنما بھی شامل تھے۔
افغانستان میں گزشتہ برس طالبان کی حکومت آنے کے بعد حقانی پشاور سے کابل منتقل ہو گئے اور وہاں ایک اور دینی مدرسے کی بنیاد ڈالی، اطلاعات کے مطابق وہاں بھی افغانستان بھر سے طلبہ اس مدرسے میں داخل ہو گئے۔
مولوی حقانی افغان طالبان کی پشاور اور کوئٹہ شوریٰ کے رُکن کے علاوہ ملٹری کمیشن کے بھی رُکن تھے۔
مشتاق یوسفزئی کے مطابق طالبان میں ان کا اپنا ایک موؐثر گروپ بھی تھا اور ننگرہار سمیت مختلف صوبوں میں ان کے زیرِ اثر کئی طالبان کمانڈرز تھے۔
افغانستان کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی حمد اللہ محب نے مولوی رحیم اللہ حقانی کی ہلاکت پر ایک ٹویٹ میں الزام عائد کیا کہ اُنہوں نے خیبرپختونخوا کے مختلف مدارس میں خودکش حملہ آوروں اور دہشت گردوں کو بھرتی کر کے حقانی نیٹ ورک میں شامل کیا۔
سلفی مکتبِ فکر کے بڑے ناقد
بعض ماہرین کے مطابق مولوی رحیم اللہ حقانی امریکی اور اتحادی افواج، سابق افغان حکومت اور داعش کے بڑے مخالف سمجھے جاتے تھے۔
مولوی حقانی نہ صرف سلفی مکتبِ فکر کے خلاف سخت موؐقف رکھتے تھے بلکہ وہ افغانستان کے مذہبی خانوادوں گیلانی اور مجددی کی بھی کھل کر مخالفت کرتے تھے۔
افغان اُمور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سمیع یوسفزئی کے مطابق رحیم اللہ حقانی داعش، سلفی اور بریلوی مکاتبِ فکر کے افراد پر کھل کر تنقید کرتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ طالبان کے حلقوں میں بہت زیادہ مقبول تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ رحیم اللہ حقانی کو افغان طالبان کے اندر بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، تاہم سلفی مکتبِ فکر پر تنقید اور اُنہیں دائرۂ اسلام سے خارج سمجھنے کی وجہ سے وہ متنازع بھی تھے۔
شدت پسند تنظیم داعش نے رحیم اللہ حقانی پر کابل میں جمعرات کو خود کش حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔ اکتوبر 2020 میں مولوی رحیم اللہ کے پشاور مدرسے میں دھماکہ ہوا تھا جس میں وہ محفوظ رہے تھے، لیکن مدرسے کے 10 طلبہ ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ داعش نے اس حملے کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی، لیکن مولوی حقانی نے داعش کو اس کا ذمے دار قرار دیا تھا۔
طالبان قیادت سے اختلافات
مولوی رحیم اللہ حقانی نے طالبان کے سربراہ مولوی ہبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانے کے فیصلے پر تنقید کی تھی۔
مشتاق یوسفزئی کے مطابق مولوی حقانی خواتین کی تعلیم کے حق میں تھے اور اسی بنیاد پر طالبان کے بعض حلقوں میں ان کی مخالفت بھی شروع ہو گئی تھی۔
اُن کے بقول رحیم اللہ حقانی کے معتدل خیالات کی وجہ سے نوجوان طالبان میں اُنہیں کافی پذیرائی حاصل ہوئی تھی۔
افغانستان کے ایک سینئر صحافی سید رحمان رحمانی کے بقول رحیم اللہ حقانی کے خیالات کی وجہ سے افغان طالبان کے سربراہ ہبت اللہ اخوندزادہ اور دیگر سینئر قیادت ان سے نالاں تھی۔ اسی بنیاد پر انہیں جون میں ہونے والی سہ روزہ علما کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔