رسائی کے لنکس

طالبان حکومت کا ایک سال، 'تشدد میں کمی لیکن بے روزگاری اور غربت بڑھ گئی'


گزشتہ برس 15 اگست کو جب طالبان نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا تو دنیا بھر کے دیگر صحافیوں کی طرح میں نے بھی رپورٹنگ کی غرض سے کابل کا رُخ کیا۔

فضائی حدود چوں کہ بند تھی اس لیے پشاور سے براستہ طورخم جانے کا فیصلہ کیا۔ افغانستان میں داخل ہونے کے بعد سول کپڑوں میں ملبوس باریش طالبان اہلکار مجھے ایک قریبی دفتر میں لے گئے جہاں ان کے کمانڈر نے صحافتی دستاویزات کی تفتیش کے بعد ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے فراہم کردہ دستاویز مہیا کرنے کا کہا۔

ذبیح اللہ مجاہد افغان طالبان کے ترجمان ہیں۔ میرے پاس چوں کہ ذبیح اللہ مجاہد کا آڈیو پیغام موبائل فون میں موجود تھا لیکن طالبان کمانڈر وہ دعوت نامہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔

ذبیح اللہ مجاہد کو متعدد مرتبہ فون کال کرنے کی کوشش کی لیکن پتا چلا کہ وہ صوبہ پکتیکا میں کسی مشاعرے میں شرکت کے لیے گئے ہیں اور وہاں موبائل سگنلز کام نہیں کر رہے۔

خیر تین گھنٹوں کی مختصر حراست کے بعد بالآخر اجازت ملی اور عصر کے وقت کابل کی جانب اپنا سفر شروع کیا۔ راستے میں طالبان اہلکار جگہ جگہ چوکیوں پر موجود تھے جن کا رویہ دوستانہ تھا ۔تاہم راستے میں بغیر پوچھے فوٹو گرافی کی اجازت نہیں تھی۔

چھ گھنٹوں کے سفر کے بعد کابل میں داخل ہوا تو ہر جانب روشنیاں بکھری ہوئی تھیں۔دکانیں بند تھیں اور سڑکوں پر رش کم تھا۔ کچھ دوستوں نے بتایا کہ طالبان حکومت سے قبل دکانیں رات گئے تک کھلی رہتی تھیں۔

ہوٹل پہنچنے پر ایک طالب سیکیورٹی اہلکار نے انگریزی زبان میں مخاطب ہو کر استقبال کیا۔ ان کے بولنے میں روانی اور لہجہ قطعاً افغان نہیں لگ رہا تھا۔ پوچھنے پر بتایا کہ انہوں نے ہالی وڈ فلمیں دیکھ کر انگریزی زبان سیکھی۔

طالبان سیکیورٹی اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ انہیں ہوٹل انتظامیہ کی جانب سے ان کی خدمات کے پیشِ نظر کھانا اور تنخواہ مل رہی ہے۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھے۔ کیوں کہ کابل کی گلیوں پر ڈیوٹیاں سر انجام دینے والوں کے مطابق وہ بلا معاوضہ کام کر رہے تھے۔

قریبی بیٹھے دوسرے ساتھی نے بتایا کہ وہ صوبہ فرح سے تعلق رکھتے ہیں جہاں ان کی دکان تھی۔ وہ مہینے میں تین چار مرتبہ طالبان کی کارروائیوں میں حصہ لیتے تھے اور کئی بار زخمی بھی ہوئے ہیں۔ لیکن ٹھیک ہونے کے بعد پھر سے کارروائیوں کا حصہ بن جاتے جب کہ باقی ماندہ وقت اپنی دکان کو دیتے تھے۔

طالبان حکومت کے ایک سال کے دوران صحافتی امور کے باعث کم از کم سات مرتبہ افغانستان جانے کا موقع ملا۔ ہر بار شہریوں کی صورتِ حال پہلے کی نسبت مختلف پائی، یعنی مزید پستی۔

شروع کے دنوں میں کابل میں ہر طرف خوف کی فضا تھی۔ ملک چھوڑنا افغان شہریوں کی اولین ترجیح تھی، بینک بند تھے اورلوگوں کے پاس پیسے نہیں تھے۔ سڑک کنارے نئی منڈیاں لگنا شروع ہو گئی تھیں جہاں شہری اپنے گھر کا سامان اونے پونے داموں بیچ رہے تھے۔ بیڈ، بستر، کمبل، واٹر کولر، سوفہ سیٹ، کھانے کے برتن اور حتیٰ کہ بچوں کے کھلونے اور بے بی والکر جیسی اشیا عارضی طور پر لگائی جانے والی مارکیٹوں میں دیکھی جا سکتی تھیں۔

اس بارے جب ایک شہری سےپوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس وقت انہیں اشیا خور و نوش کی ضرورت ہے۔ ان کھلونوں سے زیادہ اب بچوں کے پیٹ بھرنے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔

اسی طرح کچھ لوگوں نے گلی اور کوچوں میں طالبان کے سفید جھنڈے فروخت کرنا شروع کر دیے تھے۔ ایک ایسے ہی نوجوان سے جب میں نے پوچھا کہ وہ پہلے کیا کرتے تھے۔ تو انہوں نے بتایا کہ وہ وہ پولیس کے محکمے میں ملازمت کیا کرتے تھے۔ طالبان کی جانب سے سابق سیکیورٹی اہلکاروں کو عام معافی کا اعلان اور نوکریوں پر واپسی کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ طالبان ڈیوٹی پر آنے کا تو کہہ رہے ہیں لیکن تنخواہ نہیں دیتے۔ اس لیے اچھا ہے کہ اپنے گھر پر اپنے بچوں کے ہمراہ ہی رہوں اور چھوٹا موٹا کام کرتا رہوں۔

'ایک سال میں کابل کا ماحول مکمل طور پر بدل چکا ہے'

طالبان حکومت کے قیام کے بعد کابل کے ابتدائی دورے کے دوران افغان وزارتِ داخلہ جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں ایک سینئر طالبان اہلکار نے اپنے دفتر بلا کر مختلف نوعیت کے سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔ ساتھ ساتھ اپنے سیکریٹری کو تاکید کی کہ سب کچھ نوٹ کرتے رہیں۔

اہلکار کے سوال زیادہ تر انتظامی نوعیت کے تھے۔ مثلًا پہلے جب یہاں آتے تھے تو کس سے ملاقات ہوتی تھی، سیکیورٹی کلیرنس کیسے ہوتی تھی، ملاقات کے لیے وقت کے تعین کا طریقہ کار کیا تھا؟ وغیرہ وغیرہ۔ سوال و جواب کے جب اس مرحلے کے بعد وزارتِ داخلہ کے دفتر سےواپسی ہونے لگی تو سینئر اہلکار نے اپنے سیکریٹری کو بتایا کہ "ہم بھی انہیں ہدایات کی روشنی میں دفتری امور چلائیں گے۔"

گزشتہ دور میں طالبان کو زیادہ تر موٹر سائیکلوں پر ہی دیکھا جاتا تھا۔ وہ تمام گاڑیاں جو چند دن قبل افغان سیکیورٹی فورسز کے زیر استعمال تھیں وہ طالبان کے قبضے میں آ چکی تھی۔ ہاتھوں میں بندوق تھامے طالبان کی گاڑیاں فراٹے مارتے ہوئے شہر میں دوڑتی ہوئی دیکھی جا سکتی تھیں۔

اگست 2021 سے اگست 2022 تک کے سفر کو اگر بیان کیا جائے تو اس ایک سال میں کابل کا ماحول مکمل طور پر بدل چکا ہے۔ طالبان کلاشنکوف کی جگہ زیادہ تر وقت موبائل فون پر گزارتے ہیں۔ پبلک پارک، چڑیا گھروں میں سیلفیاں لیتے ہیں۔ ایک طالب نے اپنی گن کی قیمت دس ہزار ڈالر بتائی۔

چار دہائیوں میں پہلی مرتبہ تشدد کی لہر میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن بے روزگاری اور غربت میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔ساتویں سے لے کر بارہویں جماعت تک کے لڑکیوں کے اسکول تا حال بند ہیں۔

ملک کی بیشتر آبادی اب بھی ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ سب سے زیادہ رش پاسپورٹ آفس کے گرد ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگرچہ اب درخواستیں آن لائن کر دی گئی ہیں لیکن ویب سائٹ پر بیرونِ جانے جانے والے خواہش مندوں کی درخواستوں کے دباؤ کی وجہ سے عمل بہت سست ہے۔ ہر شخص امریکہ اور یورپ جانے کا خواہش مند ہے تو دوسری جانب پاکستان کا ویزہ حاصل کرنے کے لیے بھی ہزاروں کی تعداد میں افغان منتظر ہیں۔

کابل میں ہئیر ڈریسر کی دکانیں بھی کم ہو گئی ہیں۔ شہر میں ریڑھی والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے جب کہ بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

امن و امان کی صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے طالبان اہلکار 24 گھنٹے کابل کی گلیوں اور سڑکوں پر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ان کا رویہ نہایت شائستہ ہوتا ہے۔ ایئر پورٹ اور دیگر حساس اداروں کے پاس اب طالبان'کو نائن یونٹ' کے کتوں کے ساتھ بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

زیادہ تر طالبان سول کپڑوں کے بجائے یونیفارم میں پھرتے نظر آتے ہیں۔ ایک طالب نے استفسار پرانتہائی دلچسپ بات بتائی کہ وہ سابق حکومتی اہلکاروں کا یونیفارم استعمال کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ سائز کی پرواہ نہیں کرتے ۔ جس کوجیسابھی یونیفارم مل جاتا ہے، وہ فوراً اسے پہن لیتا ہے، چاہے وہ کھلا ڈھلا ہو یا چست۔

XS
SM
MD
LG