رسائی کے لنکس

لیہ میں خاتون کی جانوروں کے ساتھ عریاں وڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار گرفتار


فائل
فائل

پنجاب پولیس نے لیہ میں خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی اور جانوروں کے ساتھ مبینہ پورنوگرافی کیس میں مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے کیس کی گتھیاں سلجھانے کے لیے جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم تشکی دی تھی۔ جس کی سرابراہی ایس پی رینج انوسٹیگیشن برانچ رب نواز تلہ کر رہے تھے۔

جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم نے واقعہ کے مرکزی ملزم شاہ زیب عرف رانا وسیم کو، جو چوک اعظم کا رہائشی ہے ، گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے لوکیٹر کی مدد سے ملزم کو گرفتار کیا ہے۔

مرکزی ملزم کی گرفتاری کے ساتھ ہی پولیس نے لیہ میں خاتون کے ساتھ مبینہ زیادتی اور جانوروں کے ساتھ اُس کی عریاں تصاویر و ویڈیو( پورنوگرافی) بنانے کے کیس میں اپنی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔

پولیس نے اس رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ شکایت کنندہ خاتون نے مرکزی ملزم کے ساتھ مل کر سارا وقوعہ رچایا ہے۔

واقعہ کیا ہے؟

گیارہ اگست 2022 کو صوبہ پنجاب کے ضلع لیہ پولیس کو ایک خاتون کی جانب سے درخواست دی گئی تھی۔ جس میں کہا گیا تھا کہ اُسے چند نامزد اور کچھ نامعلوم افراد نے اغوا کر کے چوک اعظم لے گئے۔ جہاں اسکے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور ویڈیو کلپ بنائے گئے۔ درخواست کے مطابق شکایت خاتون کے ساتھ بعد ازاں کتے کے ساتھ پورنوگرافی کرائی گئی۔

لیہ وڈیو اسکینڈل کی پولیس میں درج ایف آئی آر کا عکس
لیہ وڈیو اسکینڈل کی پولیس میں درج ایف آئی آر کا عکس

خاتون کی جانب سے سوشل میڈیا پر دستیاب بیان میں کہا گیا تھا کہ چند افرادنے اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور جانوروں کےساتھ عریاں ویڈیوز بھی بنائی گئی۔ خاتون نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملزمان دیگر لڑکیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں اور جانوروں کے ساتھ بنائی گئی وڈیوز کومختف ویب سائیٹس پر اَپ لوڈ کر کے پیسے کماتے ہیں۔

درخواست دہندہ خاتون کے مطابق ملزمان نے اُسے کسی سے بھی واقعہ کا ذکر کرنے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔

وائرل ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون بغیر لباس کے ہے۔ جس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور اُس کے منہ کو کپڑوں اور رسی سے باندھا ہوا ہے۔ دستیاب ویڈیو میں ایک کتا خاتون کے ساتھ حرکات کر رہا ہے۔

جوائنٹ ایویسٹیگیشن ٹیم کا موقف:

پولیس کے مطابق یہ ایک منظم گینگ ہے۔ جو لوگوں کو بلیک میل کر کے اُن سے پیسے بٹورتا ہے۔ جن کے خلاف ماضی میں بھی شکایات تھیں۔ کیس کو گتھیاں سلجھانے اور میڈیا میں آنے پر اِس پر جے آئی ٹی بنانا پڑی۔

جے آئی ٹی کے انچارج ایس پی رب نواز تلہ کہتے ہیں کہ اُن کی ٹیم نے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے لوکیٹر کی مدد سے مرکزی ملزم اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ دیگر ملزمان کی گرفتار کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ وقوعہ میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کر کے خلاف قانون کے مطابق قارروائی کی جائے گی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایس پی رب نواز تلہ نے کہا کہ شکایت کنندہ کرن بی بی کی درخواست پر ،جس کا اصل نام صائمہ فرحان ہے، ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب ڈاکٹر احسان صادق نے واقع کا سخت نوٹس لیتے ہوئے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کے احکامات جاری کیے۔

’’ ٹیم نےسخت محنت اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے وقوعہ کے حقائق سے متعلق آگاہی حاصل کی اور ملزمان تجمل حسین ،ابرار عرف بابر، محمد سلیم اور اخلاق احمد کو گرفتار کر کے تفتیش کا دائرہ کار مزید وسیع کیا۔ جس میں پتہ چلا کہ شکایت کنندہ خاتون پہلے بھی اور نام سے میانوالی اور تھانہ چوک اعظم لیہ میں مقدمہ درج کروا چکی ہے‘‘۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نےدعوی کیا شکایت کنندہ خاتون نے شاہ زیب عرف رانا وسیم سے شادی کی ہوئی ہے۔ پورنوگرافی میں استعمال ہونے والے کتے کو کرن کا خاوند شہباز خود چک نمبر 298/TDA سے اخلاق احمد سے لے کر آیا۔ جسے وہ پورنوگرافی کے بعد واپس دے کر آیا۔

لیہ واقعہ میں جے آئی ٹی کے سربراہ ایس پی انویسٹیگشن رب نواز نے کہا کہ ملزم شاہ زیب عرف رانا وسیم نے پورنوگرافی کی۔ پولیس نے پورنوگرافی کیلئے استعمال کیے جانے والے کتے کو برآمد کر کے کرن بی بی کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ملزم شاہزیب عرف رانا وسیم سے متعلق ریکارڈ میں 11 مقدمات درج ہیں۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں شکایت کنندہ خاتون یا ان کے وکیل اور کیس کے مرکزی ملزم کے وکیل سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ دستیاب معلومات کے مطابق ملزمہ اور ملزم نے تاحال کسی وکیل کی خدمات نہیں لی ہیں۔ تاہم وائس آف امریکہ کوشش جاری رکھے گا کہ ملزمان سے براہ راست یا ان کے وکلا اور خاندان کے افراد تک رسائی کے بعد ان کا نقطہ نظر سامنے لایا جا سکے۔

اینیمل پورنوگرافی کی ویڈیو کہاں اَپ لوڈ ہوئی؟

جے آئی ٹی کا حصہ لیڈی سب انسپکٹر صائمہ بتول کہتی ہیں کہ پولیس نے مختلف بھیس بدل اور اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ملزمان کر گرفتار کیا ہے۔ جس میں اُن کے موبائل کے فرانزک ٹیسٹ، ملزمان کے پولی گرافک ٹیسٹ اور دیگر ٹیسٹ کرائے گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ کیس کی گتھیاں سلجھانے کے لیے ایف آئی اے کی خدمات بھی لی گئیں ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دورانِ تفتیش یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویڈیوز کسی ویب سائیٹ پر اپلوڈ ہونے کے شواہد نہیں ملے۔

سب انسپکٹر صائمہ بتول نے کہا کہ اینیمل سیکس ویڈیو صرف سنسنی پھیلانے کیلیے بنائی گئی تاکہ پولیس فوری مقدمہ درج کرے۔ خاتون سب انسپکٹر کے مطابق ملزمہ اور اِس کا شوہر شکایت کنندہ خاتون کی مدعیت میں درج کرائی گئی ایف آئی آر میں نامزد افراد کو بلیک میل کر کے پچاس لاکھ روپے وصول کرنا چاہتے تھے تا کہ کیس کے ایک اور ملزم شاہزیب کی پہلی بیوی نور بصیرت کی رہائی کے لیےبندوبست کیا جا سکے جوپہلے ہی جیل میں ہے۔

پولیس عہدیدار نے مزید بتایا کہ مرکزی ملزم کو جمعہ 19 اگست کو عدالت میں پیش کر دیا گیا تھا۔ جس کے لیے پولیس نےریمانڈ کی درخواست کی تھی۔ عدالت نے اُس کا ریمانڈ دیتےہوئے اسے پولیس کے حوالےکر دیا ہے جبکہ شکایت کنندہ خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہے۔

سب انسپکٹر صائمہ بتول کے مطابق تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ ایک پورا گینگ ہے۔ جس کے بارے میں مزید تحقیقات جاری ہیں۔ اُنہوں نے اِس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ گینگ دوسرے اضلاع میں بھی کارروائیاں کرتا ہو۔

مرکزی ملزم کی پہلی بیوی کون ہے؟

پولیس ریکارڈ کے مطابق مرکزی ملزم کی پہلی بیوی کا نام نور بصیرت ہے جس کے خلاف گزشتہ سال لیہ کے پولیس تھانہ سٹی میں مقدمہ درج ہے۔ مقدمہ نمبر 21\485 کے مطابق شاہ زیب کی پہلی بیوی نور بصیرت کے خلاف اریبہ نامی ایک لڑکی کی مدعیت میں جنسی زیادتی اور ویڈیو بلیک میلنگ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ نور بصیرت ابھی تک جیل میں ہے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق نور بصیرت کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔

ملزمان کا سابقہ ریکارڈ:۔

ضلع لیہ کے ایک پرانے پولیس افسر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ایسے جرائم کرنے والا یہ ایک منظم گروہ ہے۔ جس کے صرف ضلع لیہ میں ارکان کی تعداد آٹھ ہے۔ پولیس افسر کے مطابق گینگ پہلی مرتبہ سنہ دو ہزار سترہ میں سامنے آیا تھا۔ جس کے خلاف پولیس نے کارروائی بھی کی تھی اور گینگ کے آٹھوں افراد کو گرفتار کر لیا تھا، لیکن بعد ازاں ڈی پی او تبدیل ہونے جانے کی صورت میں کیس کی مزید پیروی نہ ہو سکی اور ملزمان ضمانت پر رہا ہو گئے۔

ضلع لیہ کے پولیس اہلکار کے مطابق مذکورہ گینگ کے رکن مختلف طریقوں سے لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں۔ گینگ میں مرد اور خواتین شامل ہیں۔ جو مختلف مرد وخواتین کو بلیک کرنے، نوکریوں کا جھانسہ دینے، جعلی تعلیمی اسناد بنانے سمیت دیگر طریقوں سے پیسے کماتے ہیں۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اِس گینگ کے میں شامل خواتین مردوں کو جبکہ مرد خواتین کو بلیک میل کرتے ہیں۔ خفیہ طریقوں سے اُن کی ویڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ جنہیں ایڈٹ کر کے لوگوں کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور اُن سے پیسوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول عام طور پر لوگ پیسے دے بھی دیتے ہیں۔

پولیس کے غیر تسلی بخش جواب:۔

وائس آف امریکہ نےاِس سلسلے میں جے آئی ٹی کے سربراہ اور جے آئی ٹی کی رکن سے شکایت کنندہ خاتون، اس کے شوہر، شوہر کی پہلی بیوی، ماضی میں کس کس کو بلیک میل کیا گیا، پولیس نے ماضی کی شکایات پر تفتیش مکمل کیوں نہیں کی، گینگ کی کارروائیاں کیوں بڑھتی چلی گئیں، گینگ کو کس کی پشت پناہی حاصل ہے جیسے سوالات کیے تو اُنہوں نے مزید بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے اعلٰی حکام نے اِس کیس پر بات کرنے سے منع کیا ہے۔ سربراہ جے آئی ٹی کے مطابق اعلٰی پولیس حکام اِس حوالے سے جلد مزید تحقیقات سامنے لائیں گے۔

نجی ٹی وی دنیا ٹیلیویژن کے مقامی نمائندہ محسن عدیل چوہدری بتاتے ہیں کہ مذکورہ گینگ سے اہلِ علاقہ تنگ تھے۔ جو لوگوں کو بلیک میل کر کے اُن سے پیسے بٹورتے تھے۔ متاثرہ لوگ ڈر اور خوف کے مارے اِس کی شکایت کم ہی پولیس کو کرتے تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ مختلف حیلوں بہانوں سے لوگوں کو بلیک میل کرنے اور اُنہیں تنگ کرنے کی شکایات پر اِس گینگ کے خلاف سنہ دو ہزار سترہ میں کاروائی ہوئی تھی۔ جیل سے چھوٹ جانے کے بعد یہ لوگ دوبارہ منظم ہو گئے اور لوگوں کو پھر سے بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔

اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے اُنہوں نے کہا اِس گینگ میں شامل خواتین مردوں پر الزام لگاتی ہیں کہ اُن کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ اُنہیں بلیک میل کرتی ہیں اور پیسے بٹورتی ہیں۔ اگر کوئی پیسے نہ دے تو مقدمہ درج کرانے کی دھمکی دیتی ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ مقدمہ درج کرا کے پیسسوں کا مطالبہ کیا گیا اور پیسے مل جانے کی صورت میں مقدمہ واپس لے لیا۔

خیال رہے واقعہ سامنے آنے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے شکایت کنندہ ملزمہ کے نمونے ڈی این اے اور فرانزک ٹیسٹ کے لیے بھجوا دئیے تھے۔

( اس سٹوری سے متعلق مزید تفاصیل متوقع ہیں۔ وائس آف امریکہ کوشش جاری رکھے گا کہ ملزمان سے براہ راست یا ان کے وکلا اور خاندان کے افراد تک رسائی کے بعد ان کا نقطہ نظر سامنے لایا جا سکے۔)

XS
SM
MD
LG