رسائی کے لنکس

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان سرحدی جھڑپیں، لگ بھگ 100 اہل کار ہلاک


آذربائیجان اور آرمینیا کی افواج کے درمیان منگل کو سرحدی جھڑپوں کے دوران لگ بھگ 100 اہل کاروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

فریقین کے درمیان دو برس کے دوران ہونے والی یہ بدترین جھڑپیں ہیں جس میں دونوں ملکوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔

اس سے قبل آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان 2020 میں ناگورنو کاراباخ کے تنازع پر چھ ہفتوں تک جنگ جاری رہی تھی جو روس کی ثالثی میں جنگ بندی معاہدے کے بعد اختتام پذیر ہوئی تھی۔ ڈیڑھ ماہ تک جاری رہنے والی اس لڑائی کے دوران 1300 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

آذربائیجان نے الزام عائد کیا ہے کہ آرمینیا نے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ جب کہ آرمینیا نے عالمی رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ آذربائیجان کی جانب سے چھیڑی گئی لڑائی میں اس کی مدد کریں کیوں کہ پڑوسی ملک کی افواج ان کی سرزمین پر قبضے کی کوشش کر رہی ہے۔

آذربائیجان کی وزارتِ دفاع نے منگل کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ آرمینیا کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی جانے والی کارروائی کے نتیجے میں ان کے 50 اہل کار ہلاک ہوئے ہیں۔ اس سے قبل آرمینیا نے کہا تھا کہ لڑائی کے دوران اس کے 49 فوجی مارے گئے ہیں۔

آذربیجان کے صدر الہام علییوف کی باکو میں عسکری قیادت سے ملاقات۔
آذربیجان کے صدر الہام علییوف کی باکو میں عسکری قیادت سے ملاقات۔

آرمینیا کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب منگل کی صبح سرحد پار سے مارٹر گولے، ڈرونز اور توپ خانوں سے گولے آرمینیا کے شہروں گورس، سوتک اور جرمک کی جانب داغے گئے۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ"دشمن آرمینیا کی سرزمین پر قبضے کی کوشش کر رہا ہے۔"

آذربائیجان نے الزام عائد کیا ہے کہ آرمینیا کی جانب سے ضلع دشکیسان، کلبجر اور لاچن کے قریب بڑے پیمانے پر تخریبی کارروائیاں کی گئی تھیں جس کے جواب میں آرمینیا کی افواج کی پوزیشنز پر محدود پیمانے پر ٹارگٹڈ کارروائیاں کیں۔

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جھڑپوں کے بعد روس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ فریقین کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔ تاہم روس کے بیان کے بعد آذربائیجان نے آرمینیا کی فورسز پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شدت کے ساتھ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔

یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ نے جھڑپوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور فریقین سے اپیل کی ہے کہ وہ لڑائی ختم کریں۔

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بھی دونوں ملکوں کے رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر لڑائی ختم کریں اور امن معاہدے کی جانب بڑھیں۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں نے آذربائیجان کے ہم منصب الہام علییوف کو فون کر کے گہری تشویش کا اظہار کیا اور جنگ بندی کا احترام کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے جامع مذاکرات اور اس کے لیے اپنی اور یورپی یونین کی خدمات پیش کرنے کی بھی پیش کش کی۔

اس سے قبل آرمینیا کے وزیرِ اعظم نکول پیشا ین نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں، روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن کو فون کیا اور مطالبہ کیا کہ آذربائیجان کے 'جارحانہ اقدام' پر ردِ عمل کا اظہار کریں۔

آذربائیجان کے سیاسی اور عسکری معاون ترکی نے جھڑپوں کا ذمہ دار آرمینیا کو قرار دیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ امن مذاکرات پر توجہ دی جائے۔

ایران نے بھی تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ فریقین لڑائی کا پرامن حل تلاش کریں۔

آرمینیا سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار تاتل ہاکوبیان کا کہنا ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان یہ جھڑپیں امن مذاکرات میں ڈیڈ لاک کا نتیجہ ہیں۔ ان کے بقول آذربائیجان چاہتا ہے کہ آرمینیا متنازع علاقے ناگورنو کاراباخ کو آذربائیجان کا علاقہ تسلیم کر لے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یوکرین میں جاری جنگ نے خطے میں طاقت کے توازن اور روس کو متاثر کیا ہے اور اس صورتِ حال میں آذربائیجان چاہتا ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو آرمینیا سے فوائد حاصل کر لیے جائیں۔

واضح رہے کہ روس آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان جنگ بندی کا ضامن ہے لیکن یوکرین میں جاری جنگ کی وجہ سے روس کی تمام تر توجہ اس جانب ہے۔

سن 2020 میں ہونے والی جنگ کے دوران آذربائیجان نے متنازع علاقے ناگورنو کاراباخ کے کئی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور جنگ بندی کے معاہدے کے تحت آذربائیجان کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ان علاقوں پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے گا۔

'ناگورنو کاراباخ' تنازع کا پس منظر

امریکی تھنک ٹینک کونسل فار فارن ریلیشنز اور دیگر آن لائن ذرائع کے مطابق سوویت حکومت نے 1920 میں 'ناگورنو کاراباخ' کے نام سے ایک خود مختار علاقہ تشکیل دیا تھا جہاں 95 فی صد آبادی نسلی اعتبار سے آرمینیائی باشندوں پر مشتمل تھی اور ان کے ساتھ آذربائیجان کے لوگ بھی اس خطے کا حصہ تھے۔

بالشویک رول کے تحت آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان لڑائی پر کنٹرول رکھا گیا لیکن سوویت یونین جب ٹوٹنا شروع ہوا تو اس کا آرمینیا اور آذربائیجان پر بھی کنٹرول کمزور ہو گیا۔

اسی دوران 'ناگورنو کاراباخ' کی قانون ساز اسمبلی نے آرمینیا کا حصہ بننے کی متقاضی ایک قرار داد منظور کی۔ باوجود اس کے کہ یہ علاقہ محلِ وقوع کے اعتبار سے آذربائیجان کی سرحد کے زیادہ قریب تھا۔

جب 1991 میں سوویت یونین پر زوال آیا تو اس خود مختار علاقے نے باضابطہ طور پر آزادی کا اعلان کر دیا۔ اُس موقع پر آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس کے نتیجے میں 30 ہزار افراد ہلاک و زخمی ہوئے اور ہزاروں افراد پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

سن 1993 میں آرمینیا نے 'ناگورنو کاراباخ' پر کنٹرول حاصل کیا اور آذربائیجان کے قریبی 20 فی صد علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔

اگلے سال یعنی 1994 میں ایک منسک گروپ تشکیل دیا گیا جس کا مقصد اس تنازع کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ اس گروپ کی سربراہی امریکہ، روس اور فرانس نے مشترکہ طور پر کی۔

گروپ نے آرمینیا اور آذربائیجان کی قیادت کے درمیان ملاقاتوں کا اہتمام کیا جس کے بعد ایک بار پھر جنگ بندی پر اتفاق تو ہو گیا لیکن یہ تنازع اسی طرح اپنی جگہ موجود رہا اور دو دہائیوں کے نسبتاً استحکام کے بعد 2016 میں ایک مرتبہ پھر فریقین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

دو ہزار سولہ میں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں۔

XS
SM
MD
LG